ناول

لب سے جو نکلی دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! قسط نمبر 5:

مکمل ناول

لب سے جو نکلی دعا۔۔۔۔۔!!!

تحریر

حناء شاہد

قسط نمبر 5: آخری قسط۔۔۔۔۔۔!!!

لب سے جو نکلی دعا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

قسط نمبر5 ۔۔۔۔۔۔۔۔! آخری قسط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

؎ دنیا کی ٹھوکروں سے ایک ہی سبق سیکھا ہے اقبال

تمام مشکلوں کا حل ایک سجدہۤ خدا میں پوشیدہ ہے

جب وہ گھر واپس آئی تو اس کے کپڑے شکن آلود ہو چکے تھے۔ اس نے فوراً سے غسل کیا اور وضو کر کے جائے نماز بچھا کر نیت باندھی ۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائےتو کچھ بولا بھی نہ گیا۔ پھر سجدے میں گِرگِرا کر ربِ کائنات سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگی اور بعد میں اپنے شوہر، اپنے محبوب عاشر کے واپس پلٹنے اور اور سیدھی راہ پر چلنے کی دعا کی۔ پچھلے کچھ دنوں سے عشنا کا یہی معمول تھا۔ وہ ہر نماز میں روروکر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی اور عاشر کے صحیح سلامت گھر واپس آ جانے کی دعا کرتی رہتی۔ آج بھی وہ جائے نماز بچھائے رورو کر سسکیاں بھربھر کر سجدے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ جب وہ تھکے ہارے ندامت کے بوجھ سے بھاری قدموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو اسے یوں سجدہ ریز دیکھ کر عاشر کی آنکھوں میں آنسو میں اُمڈ آئے۔ جن پر ضبط رکھتے ہوئے اس نے ان آنسوؤں کو اپنی آنکھوں میں ہی دبا کر رکھا اور عشنا کا نام بےساختہ پکارا۔ “عشنا۔۔۔۔۔۔!!!”

وہ وہیں عشنا کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اس کے لرزتے کانپتے وجود کو اپنے آہنی بازوؤں کے حصار میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ عاشر کی آواز سن کر وہ چونک گئی۔ اور یکدم ہی اپنا سر اُٹھا کر عاشر کی طرف دیکھا۔

“آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔۔۔!!! واپس آ گئے۔۔۔۔۔۔؟”

عاشر کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ اس نے فوراً سے اپنے آنسو پونچھے اور مسکراتے ہوئے عاشر کے بالکل سامنے بیٹھ گئی۔

“مجھے معاف کر دو عشنا۔۔۔۔۔۔۔۔! میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔”

ندامت سے اپنے سر کو جھکاتے ہوئے عاشر نے ہاتھ جوڑ کر عشنا سے معافی مانگی تو اس نے فوراً سے اپنے نازنیں ہاتھوں سے اس کے جوڑے ہوئے آہنی ہاتھوں کو تھام لیا۔ اور جھٹ سے بولی۔

“یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم دونوں پر آزمائش تھی۔ ہمیں تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس نے ہمیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیا ہے۔”

وہ مسکراتے ہوئے بولی تو اس کی سُرمئی آنکھیں موتیوں کی طرح چمکنے لگیں۔

“کیا تم نے مجھے معاف کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس کا انداز سوالیہ تھا اور لہجہ تعجب آمیز۔

“مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

وہ اس وقت ندامت، خوف اور بےیقینی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔

“جس سے محبت کی جاتی ہے اسے چھوڑا نہیں جاتا۔”

وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

“اللہ تعالیٰ بھی تو ہم سے بےپناہ محبت کرتے ہیں تو کیا وہ ہماری چھوٹی بڑی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ نہیں۔۔۔۔۔۔! بالکل اسی طرح میں بھی آپ سے بےپناہ محبت کرتی ہوں۔ میں کبھی بھی آپ کو چھوڑنے کا تصور نہیں کر سکتی۔”

اس کو خود بھی یقین نہیں آ رہا تھا ۔ عاشر کا یوں واپس چلے آنا اور اس سے معافی مانگنا اسے حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ عاشر مزید نادم ہوتا اور عشنا سے ایسی کوئی بات کرتا وہ فوراً سے بول اُٹھی۔

“اب ہمیں اپنی زندگی کو نئے سِرے سے شروع کرنا چاہیے۔ پرانی ساری باتوں اور تلخیوں کو بھلا کر اپنی زندگی کی نئی شروعات کرنی چاہیے۔”

عاشر عشنا کی بات سن کر مسکرانے لگا۔ عشنا کے گلابی رخساروں پر جو چند آنسو ٹوٹے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے انہیں عاشر نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں میں جذب کر لیا۔

“عشنا! اب کبھی بھی میں تمہاری ان کانچ جیسی سرمئی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔”

عاشر کی بات سن کر وہ مسکرانے لگی۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس کی دعا قبول ہو گئی ہے۔ خدا نے ایک ہی پل میں اس کے دامن کو خوشیوں سے بھر دیا تھا۔ وہ ساری بےچینی، بےسکونی کا بوجھ چند ہی لمحوں میں اس کی روح سے اتر گیا تھا۔ وہ خود کو بےحد ہلکا اور

پُرسکون محسوس کر رہی

تھی۔

آج اسے احساس ہوا تھا کہ انسان کو اپنی اوقات سے بڑھ کر مادیت پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی ایسی چیز کی خواہش نہیں کرنی چاہیے جو اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو اور اگر کوئی انسان ایسا کرتا ہے تو اسے اپنے دل میں اتنی وسعت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اس راستے میں حائل ہر رکاوٹ، ہر پریشانی اور ہر آزمائش کا مقابلہ ہمت و حوصلے کے ساتھ کر سکے۔ کیونکہ جہاں پر انسان کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے وہیں وہ ذات جو تمام مخلوقات کا خالق ہے وہ اس انسان کے لیے کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا دیتی ہے۔ لہذا ہمیں بھی جھک کر اللہ تعالیٰ کے سامنے گِرگِرا کر معافی مانگنی چاہیے۔ کیونکہ اگر وہ قہاروجبار ہے تو وہیں وہ رحیم و کریم بھی ہے۔ جو ہمیں کوئی نہیں دے سکتا وہ صرف ہمیں خدا کی ذات ہی بخش سکتی ہے۔

؎ وہ ایک سجدہ جسے تُو گِراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ختم شد۔۔۔۔۔۔۔!!!

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button