آرٹیکل

HUM N PAKISTAN KO KYA DIYA BY HINA SHAHID

ہم نے پاکستان کو کیا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

تحریر

حناءشاہد

 

 

 

تہذیبِ جنوں کار پہ تنقید کا حق ہے

گرتی ہوئی دیوار پہ تنقید کا حق ہے

ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے

مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے

1947 سے لے کر 2021 تک ہم اپنی پچھلی ، اگلی اور آنے والی نسل کا جائزہ لیں تو یہ بات کسی حقیقت کا روپ دھارے ہم پہ واضح ہوتی ہے کہ ہر پاجستانی خود سے، اور اپنے آباء سے شکوے کرتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے ہمارے رہنے کے لیے آزادی سے اپنی زندگی کو دینِ اسلام کے عقائد کے مطابق گزارنے کے لیے یہ وطنِ عزیز حاصل کیا۔

ہمارے اسلاف کی طویل جدوجہد کی داستاں کو ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ہماری تاریخ ہمارے آباؤاجداد کے خون سے رقم ہے۔ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عزت کی قربانی دے کر اس سرزمین کو سینچا ہے اور بنایا ہے۔ ہم سب بخوبی ان تمام قربانیوں سے آگاہ بھی ہیں اور واقف بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

               ہمارے اسلاف کی جدوجہد کا سفر جس قدر کٹھن اور دشوار تھا اسی قدر آج کی نوجوان نسل کم ہمت بھی ہے۔ آسان راستے تلاش کرنے میں ہر وقت مصروف رہنے والی نوجوان نسل اپنے اسلاف کی قدروں کو پامال کرتے ہوئے ان تمام قربانیوں کو بھول چکی ہے۔ اور کچھ بااثر نوجوان اپنی عقل و دانش کی بنیاد پر جب کبھی تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں تو اکثر یہ جملہ زبان صدِ عام ہوتا ہے  کہ پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟                                                               

                            یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ہم پر احسان کیے ہیں۔ اپنے خون سے اس زمین کو سینچا ہے۔ ہمارے رہنے کے لیے ہمیں ایک متعین جگہ فراہم کی ہے۔ قیام ِ پاکستان کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کا ہمت و حوصلے سے مقابلہ کرنے والے وہ لوگ اپنے اساتذہ سے ٹاٹ پر بیٹھ کر جو اصول سیکھتے تھے۔ان پر بلا چوں چرا کیے بخوبی عمل بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ان لوگوں نے سارے زمانے میں خوب داد وصول کی۔             

                                یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہماری ہی کوتاہیوں اور غلطیوں کی وجہ سے سامراجی قوتیں ہم پر حکومت کرنے لگیں۔ ہمارے تخت و تاج پر قبضہ کر کے ہماری ہی اقوام پر ظلم و ستم کی کئی داستانیں رقم کرنے والے اغیار خود کو طاقتور سمجھتے ہوئے دن رات عیش کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ اس گمان میں مبتلا تھے کہ مسلمان ان کی طاقت کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتے ۔

لیکن یہ وہی مسلمان تھے جو بے آسرا تھے۔ جن کے پاس مال و دولت نہیں تھا۔ مگر وہ ہمت اور حوصلے کی قوت سے آراستہ تھے۔ ان لوگوں نے اپنے جذبۂ ایمانی اور پختہ یقین کی بدولت ان تمام مظالم کا ڈت کر مقابلہ کیا۔              اتحاد اتفاق کی دولت سے مالا مال ہو کر ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہر محاذ پر لڑے۔ زندانوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مجاہد سے شہید تک کا سفر ہمتِ اعلیٰ کی بدولت طے کیا۔

علامہ محمد اقبال جیسے عظیم شاعر نے نئے ملک کی نوید سنائی تو قائداعظم جیسے قابلِ فخر لیڈر نے اپنی بے مثال قیادت نے ہمیں ہماری پاک سرزمین سے نوازا۔                                                                           نوجوان نسل ان تمام قربانیوں کو مانتی بھی ہے اور تسلیم بھی کرتی ہے۔ مگر سوال یہاں پہ یہ اٹھتا ہے کہ ہم اس قدر عظیم قوت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے ۔

لیکن اپنے اساتذہ سے ٹاٹ پر بیٹھ کر سیکھے جانے والے ان زریں اصولوں پر ہم خود ہی عمل نہ کر سکے۔ قائد کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ہم نے جو عزت اپنے خون کی قربانی دے کر پائی تھی۔ ہم نے خود ہی اس کو پامال کر دیا۔ ہم اس عزت کو سنبھال بھی نہ سکے۔ جعلی کلیم اپنے ماتھے پر جھومر کی طرح سجائے اور پھر اپنی آستیونوں میں خوب جعلی مال بھرا۔ پھر فضول کے لڑائی جھگڑوں میں ہم نے اس وطن کی نومولودیت کے کئی سال ضائع کر دیے۔

جمہوریت کا وہ دور جو قائداعظم کی انگلی تھامے ہم نے وطنِ عزیز میں قائم رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس دور کو ہم خود ہی آگے نہ بڑھا سکے۔ ہم نے اپنی ہی آستین میں مارشل لاء کا پیوند لگا کر اپنی نوجوان نسل کو کئی سال اسی مارشل لاء کے زبردستی قوانین کے سائے تلے جوان کیا۔ ان سالوں میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل اپنی عقل و فہم کو استعمال کس طرح کر پاتی  جبکہ ہر طرف بربریت کے پرچم لہرائے جا رہے تھے۔ ہم نے اپنی ہی نوجوان نسل کی بینائی خود ان سے چھین کر انہیں مفلوج کر دیا۔ اپنی ہی نادانیوں کی بدولت ہم نے قائد کی عزم کی داستان اس پاک سرزمین کا آدھا حصہ گنوا دیا۔

یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ قائداعظم جیسے عظیم لیڈر سے ہم بہت جلد ہی محروم ہو گئے۔ اگر ہمیں اس عظیم انسان کی مزید صحبت میسر آ جاتی تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہم شکوؤں کا پندار کھولے نوجوان نسل پر تنقید ہی کرتے رہیں گے۔ تو ہماری نوجوان نسل اپنا راستہ بھٹک جائے گی۔ اگر ہم ان تمام منفی پہلوؤں کو پسِ پشت ڈال کر مثبت سوچ کے ساتھ آگے چلیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ آج بہت کچھ کھونے کے بعد بھی ہمارے پاس بہت کچھ ایسا ہے جسے ہم وقت پر سنبھال کر موجودہ اور آنے والی نسل کو ایک متعین اور سیدھی راہ دکھا سکتے ہیں۔  جس پر چل کر ہمارا ملک اور ہماری سرزمین ترقی کی منازل طے کر سکتی ہیں۔ اور اس سب کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنے نظامِ تعلیم کو جدید طریقوں پر استوار کرنا ضروری ہے۔

اگر مثبت انداز سے سوچا جائے تو جمہوریت کا دور آج بھی قائم ہے۔ ہم آج ایٹمی دولت سے مالا مال چند ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔ تیزی کے ساتھ نہ سہی لیکن سست روی کے ساتھ ہی ہم اپنے قافلے کو لیے منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ آپس میں اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ عامرانہ دور کے روثے میں حاصل ہونے والے مسائل کٹھن ضرور ہیں لیکن ہم پھر بھی ان مسائل سے نمٹنے کی ہر ممکن سعی کر رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ہماری آنے والی نوجوان نسل علم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہو۔

انہیں پہلے سے متعین کردہ ایک راستہ میسر کیا جائے ۔جس پر چل کر ان نوجوان جذبوں کو جولانیاں ملیں۔ راستے کی مشکلوں سے گھبرائے بغیر اتحاد کی دولت سے مزین ہو کر ہم اپنے ادھورے خوابوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ اس نسلِ نو سے بے دل و مایوس ہونے کی بجائے امید کا دامن تھامتے ہوئے  ان کا حوصلہ بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی کمیوں کو پسِ پشت ڈال کر ان کوتاہیوں کا رونا رونے کی بجائے یہ سوچنا ہو گا کہ کون سی راہ متعین کی جائے۔ کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ ہم ہی اس کے والی ہیں۔ ہم ہی اس کے وارث ہیں۔ ہم قائداعظم کی اس امانت کے امین ہیں۔

ضرورت ہے تو بس اس امر کی کہ بچے بوڑھے جوان سب قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہوئے زمانے کے انداز اور مزاج کو سمجھتے ہوئے فیصلہ لیں ۔ اور پھر اس پر عمل بھی کریں۔ کیونکہ ہمیں اپنے مسائل کا حل خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ اور جس دن ہم نے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کر لیا تو پھر ہماری صورتِ معاش دوسرے ملکوں کی طرح تیزی سے دنیا کے نقشے پر جگمگانے لگے گی۔ اس وطنِ عزیز کے ساتھ پیوستہ رہ کر ہی ہم اپنا نام اور مقام دوبارہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمتِ پیہم اور سعی مسلسل سے ہم ایسے معجزے کر سکتے ہیں کہ دنیا پہ ایک بار پھر ہماری دھاک بیٹھ سکتی ہے۔

محنت اور مشقت کو اپنا شعار بنا کر ہم اپنے ملک کا خزانہ خود بھر سکتے ہیں۔ ہم اپنی محنت سے امید کے ایسے چراغ جلا سکتے ہیں کہ زمانہ ان چراغوں کی لو سے خود کو روشن کرے گا۔ یہاں یہ بات قابلِ تائید ہے کہ خدا نے ہمیں اور ہمارے اس وچنِ عزیز کو معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ اور اگر ہم نے اس دولت کو ہی صحیح انداز میں سنبھال لیا تو پھر اس دنیا کی کوئی بھی طاقت نہ تو ہمیں اپنا غلام بنا سکتی ہے۔ اور نہ ہی ہم بھاری قرضوں کے بوجھ تلے خود کو اور اپنے ضمیر کو دبنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ہماری یہ سرزمین اسی طرح شاد و آباد رہے گی۔ ہمارے نوجوان ہی وہ سہارا ہیں جو درست سمت پر چلتے ہوئے ہمارا سر فخر سے بلند کر سکتےہیں۔ ہمیں رشکِ جہاں بنا کر ہماری اس کشور کو مزید حسین بنانے میں اہم کردار صرف اور صرف ہمارے نوجوانوں کا ہی ہے۔ اور ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئیے کہ بے دل اور جذباتی نسلِ نو میں اتنا جذبہ اور ہمت ضرور ہے کہ اگر ان کی سمت کا درست تعین کیا جائے تو یہ نوجوان ایک بار پھر ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ یہ نوجوان نسل کئی حسین منازل طے کرے گی۔ ایک دوسرے پر انگلی اٹھائے بغیر اپنے قدموں کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے ہمتِ اعلیٰ اور حوصلے کے ساتھ اپنی اپنی ذمے داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے ہم ایک بار پھر سے دنیا کے نقشے پر اپنا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ بس اس سوچ کو بدلنے کی کوشش کرنی ہو گی کہ پاکستان نے ہمیں کیا کیا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

بس یہ سوچئیے۔۔۔۔۔۔!!!

ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

 

 

خونِ دل دے کر نکھاریں گے رُخ ِ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

                               ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

2 Comments

  1. بہت عمدہ تحریر ۔۔دل کھول کر رکھ دیا ہے صاحبِ تحریر نے
    ۔زبردست
    👏👏

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button