رومینٹک ناول
Trending

Mera Jahan | Romantic Novel | Hina Shahid | Episoede 1 to Episode 4 Complete | Sad Romantic Novel | Bold Story

میرا جہاں رومینٹک ناول تحریر حناء شاہد

میرا جہاں رومینٹک ناول
قسط نمبر : 1
تحریر حناء شاہد
ننگے پاؤں سبز مخملی فرش پر چلتی وہ، وقت کی گرفت سے آزاد، لمحوں کے تسلسل کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں سمیٹے، خاموشی سے صبح کی مقدس ساعتوں کا حصہ بن چکی تھی۔ ہوا میں بسی نمی، فضا میں رچا ذکرِ سبحانی، اور مشرق کے افق پر سورج کی ہلکی ہلکی شعاعیں جیسے اس کے اندر ایک نئی توانائی انڈیل رہی تھیں۔ اس کے گہرے سیاہ بال پشت پر کسی آبشار کی طرح بکھرے ہوئے تھے، اور وہ انہی بالوں کے ساۓ میں اپنی سوچوں کے سائے تلاش کر رہی تھی۔
نمازِ فجر کی ادائیگی، قرآنِ پاک کی تلاوت اور پھر یہ خاموش مگر روحانی سیر—یہ سب اس کی زندگی کا ایسا حصہ بن چکے تھے جو اُسے دنیا کی ہر بےچینی سے نکال کر اک عجب سکون کی دنیا میں لے جاتا۔ چاند اب سورج کے سامنے شکست کھا رہا تھا، جیسے خواب حقیقت کے سامنے جھک رہے ہوں۔ وہ یہ منظر روز دیکھتی تھی، مگر ہر بار اُسے یوں لگتا جیسے قدرت اُسے پھر سے جینا سکھا رہی ہو۔
چڑیوں کی مدھم چہچہاہٹ، لان کی گھاس میں شبنم کے ننھے قطرے، درختوں پر جھومتی ٹھنڈی ہوا، اور دل کے نہاں خانوں میں اترتی پرکیف خاموشی — یہ سب کچھ مل کر ایک ایسی صبح کو جنم دے رہے تھے جس کا لمس روح تک اُتر رہا تھا۔
آج نومبر کی دوسری صبح تھی، مگر موسم جیسے آج پہلی بار اپنے بدلنے کا اعلان کر رہا ہو۔ اس کی جلد پر سرسراتی خنکی نے اُسے لمحہ بھر کے لیے چونکا دیا۔ وہ رکی، اپنی شال کو سینے کے گرد لپیٹا اور آسمان کی وسعتوں کو یوں دیکھا جیسے کوئی جواب مانگ رہی ہو۔
وہ ابھی دو قدم ہی اندر آئی تھی کہ ایک مانوس سی خوشبو نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا — لوبان اور گلاب کی ملی جلی مہک، جیسے ہر سانس کے ساتھ بچپن کی یادیں جاگنے لگیں۔ صوفے پر بیٹھیں دائی جان کا پر وقار وجود، ان کی آنکھیں بند، ہونٹوں پر مسلسل حرکت، اور ہاتھوں میں جھولتی تسبیح… ایک لمحے کو لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
دائی جان کے چہرے پر نورانی سکون کی وہ جھلک تھی جو صرف سچّے ذاکر کے چہرے پر اُترتی ہے۔ وہ کچھ پل وہیں ٹھٹک گئی… نہ چاہتے ہوئے بھی دل کی دھڑکنیں سست پڑنے لگیں۔ اس کے قدموں کی چاپ، اس کی جلدی کا شور، سب کچھ اس خاموش ذکر میں دب سا گیا۔ اچانک دائی جان کی پلکیں ہلیں، جیسے اندر کے سکون نے بیرونی شور کو محسوس کر لیا ہو۔
“آ گئی تم؟”
نرمی بھری آواز نے اس کی بےچینی پر مرہم رکھا۔ وہ ایک لمحے کو خاموش رہی۔
انیزہ نے جیسے ہی لاونج میں قدم رکھا، اس کا پاؤں صوفے کے نچلے کنارے سے بری طرح ٹکرا گیا۔ لمحہ بھر کو سب کچھ ٹھہر گیا۔
“آہ۔۔۔!”
ایک چیخ سی نکلی، جو لاونج کے پرسکون ماحول میں بجلی بن کے گونجی۔ اس کے ساتھ ہی وہ لڑکھڑائی، مگر دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچا لیا۔
دائی جان کی بند آنکھیں فوراً کھلیں، تسبیح کے دانے انگلیوں کے بیچ رُک گئے۔
“ہائے میری جان!”
وہ گھبرا کر تقریباً دوڑتی ہوئیں اس کی طرف آئیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی کی گہری لکیریں ابھر آئیں، جیسے ان کی دنیا ہی لرز گئی ہو۔
انیزہ، جو ابھی پاؤں پکڑ کر فرش پر بیٹھ گئی تھی، درد بھری ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی:
“آہ! میرا پاؤں تو جیسے ٹوٹ ہی گیا ہے آج!”
چہرے پر بے پناہ تکلیف کا اظہار، آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلک، اور ہونٹوں پر دبی دبی کراہ… مکمل اداکاری تھی!
دائی جان کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں، اس کے پاؤں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بار بار دیکھنے لگیں،
“ہائے اللہ! کیا ہو گیا ہے میری بچی کو؟ دیکھنے کا بھی ہوش نہیں رہا؟ دھیان سے نہیں چلا جاتا؟”
ان کی آواز میں محبت تھی، فکر تھی، اور خفگی کا ہلکا سا شکوہ بھی۔ وہ پاؤں سہلاتے ہوئے بار بار اس کے چہرے کو دیکھتیں، جیسے اس کے چہرے کا رنگ ان کے دل کی دھڑکن سے جُڑا ہو۔
انیزہ نے دل ہی دل میں ہنسی دبائی، مگر چہرے پر درد کا نقاب برقرار رکھا۔ وہ جانتی تھی، دائی جان کی ممتا اسے اس لمحے رانی بنا دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“مام! مام!”
عاریز کی بلند آواز کمرے میں گونجی، جیسے کوئی ایمرجنسی ہو۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تھا، چہرے پر جھنجھلاہٹ اور پیشانی پر شکنیں۔ کبھی دراز کھولتا، کبھی کیبنٹ کو بند کرتا، جیسے جنگ کے میدان میں کچھ کھو گیا ہو۔
درخشاں بیگم نے دروازہ کھولا اور اندر آتے ہی سیدھا عاریز کے سامنے جا کھڑی ہوئیں، ان کی پیشانی پر خفیف سا سوالیہ تاثر تھا۔
“کیا ہوا ہے عاریز؟”
ان کی آواز میں مامتا کی نرمی تھی، مگر ساتھ ہی پریشانی بھی جھلک رہی تھی۔
“میری ٹائیز کا سیٹ غائب ہے! پورا روم چھان مارا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا!”
وہ جھنجھلا کر بولا اور ہاتھوں سے بے بسی کا اظہار کیا۔
درخشاں بیگم نے اس کی جھنجھلاہٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خفیف سی مسکراہٹ لبوں پر سجائی اور خاموشی سے الماری کے قریب گئیں۔ فرسٹ ڈرا کھولا، اور چند ہی لمحوں میں مطلوبہ ٹائیز کا سیٹ نکال کر وہ اس کے سامنے کھڑی تھیں۔
“یہ کہاں سے ملا آپ کو؟”
عاریز نے حیرت اور شکستہ لہجے میں پوچھا۔
“وہیں سے ملا جہاں ہمیشہ رکھا ہوتا ہے۔”
درخشاں بیگم نے نرمی سے کہا، ان کی مسکراہٹ اب بھی چہرے پر سجی تھی، جیسے ہر سوال کا جواب صرف ان کے سکون میں چھپا ہو۔
عاریز نے جھک کر گرے کلر کی ٹائی نکالی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مہارت سے ناٹ باندھنے لگا۔ چہرے پر اب اطمینان تھا۔
“اس مسئلے کا ایک بہترین حل ہے میرے پاس!”
درخشاں بیگم نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
عاریز نے چونک کر مام کی طرف دیکھا، جیسے پہلے سے جانتا ہو کہ اب کوئی جذباتی بم گرنے والا ہے۔
“ہاں، مجھے معلوم ہے! آپ کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔”
وہ مسکرایا، مگر اس کی مسکراہٹ میں شرارت بھی تھی اور بےخبری بھی۔
“ماں ہوں نا… اور ماں کے پاس اپنے بچوں کے ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔”
انہوں نے محبت سے اس کے بالوں کو چھوا، جو جیل سے ترتیب دیے گئے تھے۔
“مام! پلیز! اتنی محنت سے بال سیٹ کیے تھے، اور آپ نے سب بگاڑ دیے!”
اس نے مصنوعی خفگی کے ساتھ بال دوبارہ سیدھے کیے اور اب باڈی سپرے اپنے گرد چھڑکنے لگا۔
“اب شادی کر لو، بیٹا! بس بہت ہو گیا، سیٹل سیٹل کا ڈرامہ۔ میں اور تمہارے بابا اب تمہارے بچوں کو گود میں کھیلانا چاہتے ہیں۔”
ان کی آواز میں خواہش تھی، تمنا تھی، ماں کے دل کی سچائی تھی۔
عاریز نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ وہی جملہ… جو بارہا سنا تھا، مگر ہر بار دل کو کسی انجانی الجھن میں مبتلا کر دیتا تھا۔
“مام! پلیز، ابھی بہت دیر ہو گئی ہے۔ آفس میں ایک اہم میٹنگ ہے جو آپ کے شوہر نے خود ارینج کی ہے۔ اب اگر میں مزید لیٹ ہوا تو صبح کی کلاس میں میری باری لگ جائے گی۔”
اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا، مام کو محبت سے گلے لگایا، ان کی پیشانی چومی اور اپنا بیگ کندھے پہ ڈالتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
درخشاں بیگم بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہیں، آنکھوں میں ایک ادھورا خواب لیے۔
“نجانے کب یہ لڑکا سدھرے گا… نجانے کب ہمارے آنگن میں بھی ہنسی کی وہ آوازیں گونجیں گی، جو دل کو زندگی کا احساس دلاتی ہیں۔”
انہوں نے آہ بھری۔ ان کی آنکھیں نم تھیں، مگر لبوں پر پھر بھی مسکراہٹ تھی — ماں کی وہ مسکراہٹ، جو اولاد کی ہر خواہش پر قربان ہو جاتی ہے۔
ایک ہی بیٹا تھا ان کا… لاکھوں دعاؤں کے بعد ملنے والا، ان کی دنیا، ان کا فخر، ان کا “جہاں”… اور وہ ہر پل اسی جہاں کی خوشیوں کے لیے دعا گو تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
“ادھر دکھاؤ مجھے! زیادہ زور سے تو نہیں لگی پاؤں پہ؟”
دائی جان نے تسبیح چھوڑ کر فوراً اس کا پاؤں اپنی جھریوں بھری مگر ممتا سے لبریز ہتھیلیوں میں لے لیا۔ آنکھوں کے گرد نمی تیرنے لگی۔ محبت جیسے انگلیوں سے پھوٹ رہی ہو۔
“کاش یہ درد میں سہہ لیتی، بس تُو سلامت رہے میری بچی۔”
ان کی تھر تھراتی آواز نے ماحول کو کچھ اور بھی سنجیدہ کر دیا۔
اچانک ہی کمرے کے دروازے کی درز سے ایک کرخت آواز ابھری۔
“یہ صبح صبح کیا تماشہ لگا رکھا ہے؟”
نگینہ بیگم، ہمیشہ کی طرح چادر کا پلو کندھے پر جما کر شانِ بےنیازی سے اندر داخل ہوئیں۔ نگاہوں میں سرد مہری، اور لہجے میں زہر گھلا ہوا۔
ان کی آنکھیں جیسے فوراً نانی اور نواسی پر ٹھہر گئیں۔
“ادھر پیار محبت کے نغمے گائے جا رہے ہیں اور گھر کے کام جیسے کسی کی ذمہ داری نہیں!”
“مامی جان، وہ… میرے پاؤں پہ چوٹ لگ گئی تھی…”
انیزہ گھبرا کر بولی، جیسے کوئی چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ اس نے فوراً اپنا پاؤں زمین پر رکھا اور خود کو سنبھالتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ چہرہ ایک دم سپاٹ ہو گیا۔ رنگ جیسے موم کی طرح سفید پڑ گیا ہو۔
اس کی آنکھوں میں چھپی خوفزدہ چمک نے بتا دیا کہ نگینہ بیگم صرف “مامی” نہیں، بلکہ جیسے اس گھر کی بےرحم عدالت ہوں، جہاں جذبات کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔
نگینہ بیگم کی تیز نظریں انیزہ کے جھکے سر پہ جمی رہیں۔
“چوٹ لگ گئی؟ یا پھر آج کا بہانہ یہی طے ہوا تھا کام نہ کرنے کا؟”
فضا میں خاموشی کا ایک بھاری سا غبار چھا گیا۔
دائی جان نے انیزہ کا پاؤں تھامے تھامے آہستگی سے چھوڑ دیا اور آنکھیں جھکا لیں۔ ان کے لب ہلے مگر آواز نہ نکلی۔
“میں ابھی ناشتہ بنا لیتی ہوں مامی جان، آپ فکر نہ کریں۔”
انیزہ نے جھکے ہوئے سر اور بجھی ہوئی آواز میں کہا، جیسے کسی شکست خوردہ سپاہی نے ہتھیار ڈال دیے ہوں۔
“بہتر ہے، ورنہ یہاں ہر روز ایک نیا ڈرامہ ہوتا ہے۔”
نگینہ بیگم نے تیز قدموں سے صوفے پر آ کر بیٹھتے ہوئے ہاتھ سے پنکھا اٹھایا، جیسے وہ نہ آئیں ہوتیں تو یہ چھوٹا سا حادثہ، بغاوت میں بدل جاتا۔
انیزہ آہستہ سے مڑی۔ اس کی نظریں دائی جان سے ملیں۔ ان کے چہرے پر اداسی تھی، لیکن وہ پیار بھرا ایک خفیف سا اشارہ کر گئیں:
“سب برداشت کر لینا بیٹا، وقت بدلتا ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔
رات کا دوسرا پہر، پرانا سا کمرہ، بستر کا ایک کونا۔
باہر تیز ہواؤں کی سائیں سائیں سنائی دے رہی تھی۔ آسمان پر بادل گرج رہے تھے، جیسے کوئی ضبط شدہ دکھ چھت پہ دستک دے رہا ہو۔ کمرے کے ایک کونے میں دبکی ہوئی انیزہ اپنے بستر میں سمٹی ہوئی تھی۔ لحاف کانوں تک لپیٹا، آنکھیں نم، سانس رکی رکی سی۔
کچھ دیر پہلے…
“بس بہت ہو گیا یہ روز روز کی بکواس! نہ اس کے ماں باپ کا کوئی حساب ہے، نہ اس لڑکی کا کوئی رکھ رکھاؤ! دن رات دائی دائی کرتی پھرتی ہے، جیسے یہ گھر اس کے باپ کا ہو!”
نگینہ بیگم کی آواز ٹی وی لاونج سے آ رہی تھی، اور ہر لفظ انیزہ کے کانوں میں زہر بن کر گھل رہا تھا۔
وہ صوفے کے پیچھے کھڑی، خاموشی سے وہ سب کچھ سن رہی تھی جو اس کے وجود کو جھٹلانے کے لیے کافی تھا۔
“اچھا ہوا جو اس کے ماں باپ دنیا سے چلے گئے، ورنہ نہ جانے کیا بنتا اس کا! نجانے کب تک اسے ہم نے پالنا ہے؟”
یہ جملہ آخری تیر تھا۔ انیزہ کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے، اور وہ آہستگی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ قدموں کی چاپ اتنی ہلکی تھی کہ کسی کو سنائی نہ دی۔
اب…
وہ کمرے کے ایک کونے میں سمٹی، اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
دل میں صرف ایک دعا تھی:
“یا اللہ! اگر میری ماں ہوتی، تو کیا وہ بھی مجھے یوں تڑپتا دیکھتی؟”
تبھی دروازہ آہستگی سے کھلا۔
ایک مدھم سی روشنی میں سفید دوپٹہ اوڑھے، دائی جان اندر آئیں۔ ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور آنکھوں میں سوال۔
“انیزہ بیٹا…؟”
آواز میں وہی مان، وہی شفقت۔
انیزہ نے آنکھیں پونچھتے ہوئے جلدی سے چہرہ پھیر لیا۔
“تم پھر رو رہی ہو نا؟”
دائی جان نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے، اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
“میری بچی… لوگ کچھ بھی کہیں، لیکن میرے دل کا سکون صرف تم ہو۔ تم میرے لیے اللہ کا دیا وہ تحفہ ہو، جو میری زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔”
انیزہ نے سسکتے ہوئے ان کے بازوؤں کو اور زور سے تھام لیا۔
“مجھے کیوں یوں لگا جیسے میں اضافی ہوں؟ جیسے میں بوجھ ہوں…”
دائی جان نے اس کی پیشانی چومی۔
“تم روشنی ہو میرے گھر کی۔ اگر دنیا اندھی ہو جائے، تو کیا آفتاب اپنی روشنی دینا چھوڑ دیتا ہے؟”
انیزہ نے دھیرے سے سر ہلایا۔
مگر دل کے کسی کونے میں وہ زخم پھر بھی باقی رہا — جو مامی کی زبان سے لگ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کی دھوپ دیواروں سے ٹکرا کر صحن میں بےرحمی سے بکھر رہی تھی۔ انیزہ حسبِ معمول گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ برتن دھوتے ہوئے اس کی نظریں مسلسل فرش پہ جمی تھیں۔ جیسے اپنی سوچوں کی زنجیر میں جکڑی ہو۔
“ارے تمھاری تو رفتار بھی سانپ جیسی ہے! اب تک برتن نہیں دھلے؟”
نگینہ بیگم کا چیختا ہوا لہجہ فضا میں گونجا۔
“جی مامی، بس ابھی آخری پلیٹ بچی ہے۔”
انیزہ نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ دل جیسے پسلیوں سے لپٹ گیا ہو۔
“ہنہ! اور دیکھیے دائی جان کو، جیسے کوئی شہزادی بنا کے رکھا ہوا ہے اسے۔”
اسی لمحے، اوپر والی سیڑھیوں سے ہنستے ہنستے نیچے آتا ہوا شایان دکھائی دیا۔ پرفیوم کی تیز خوشبو، الجھے بال، گلے میں ہیڈفون لٹکا ہوا۔
“ارے ارے ماما، کیوں اتنی تیز آواز نکال رہی ہیں؟ بیچاری انیزہ تو ڈر ہی گئی ہو گی!”
اس نے ایک عجیب سا مسکراہٹ بھرا جملہ کہا، جس میں ہمدردی کم، تماشا زیادہ تھا۔
انیزہ نے ایک نظر اوپر دیکھا اور فوراً نظریں نیچی کر لیں۔ شایان کی نظریں اُس پر جمی تھیں۔ وہ نظر جو انیزہ کو ہمیشہ غیرمحفوظ کر دیتی تھی۔
“امی، میں نیچے آ رہا ہوں، ذرا انیزہ سے پانی تو منگوا دیجیے۔ آج کچھ زیادہ گرمی لگ رہی ہے۔”
“کیا تمھارے ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں؟”
نگینہ بیگم نے تنک کر کہا، مگر پھر خاموش ہو گئیں۔
شایان صوفے پر بیٹھ گیا، ایک ٹانگ دوسری پر رکھے، موبائل پہ نظریں جمائے ہوئے۔ مگر اُس کی نظریں دراصل موبائل سے زیادہ کہیں اور تھیں۔
“انیزہ، پانی لے آؤ۔”
وہ پلٹی، اور دل میں ایک سرد لہر اتری۔
دھیرے سے چلتی، پانی کا گلاس تھامے وہ جیسے ہر قدم پر خود کو سمٹتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ شایان کی نظروں کا بوجھ اس کی روح پر خراش ڈال رہا تھا۔
“شکریہ، پیاری کزن!”
شایان نے سرگوشی نما انداز میں کہا اور اس کے انگلیوں سے گلاس لیتے ہوئے جان بوجھ کر اُس کا ہاتھ چھوا۔
انیزہ کی سانس جیسے تھم گئی۔ اس نے ایک لمحے کو خود کو مضبوط کیا، اور بنا کچھ کہے واپس پلٹ گئی۔
کمرے میں پہنچتے ہی، وہ دروازہ بند کر کے دیوار سے ٹک گئی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
“یا اللہ… یہ کیسا سایہ ہے جو مجھ پر چھانے لگا ہے؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 2
دائی جان حسبِ معمول چائے کا کپ تھامے دروازے سے جھانکیں، اور ان کی نظریں جیسے ایک لمحے میں سب کچھ سمجھ گئیں۔
“انیزہ بیٹا، طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ رات نیند آئی تھی؟”
ان کے لہجے میں فکرمندی کی پرچھائیاں واضح تھیں۔
انیزہ نے بےجان سی مسکراہٹ لبوں پر لانے کی کوشش کی اور سر اثبات میں ہلایا، مگر وہ الفاظ جو دل میں طوفان بنے مچل رہے تھے، لبوں تک نہ آ سکے۔
دائی جان نے آہستہ سے پاس آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کا چہرہ اپنے نرم ہاتھوں میں تھام لیا، جیسے کسی ماں کا لمس زخمی بچے پر مرہم رکھ رہا ہو۔
“بیٹا… تم مجھ سے کچھ چھپا تو نہیں رہی؟ کوئی بات ہے جو تمھیں تکلیف دے رہی ہے؟ دل پر بوجھ رکھنا اچھی بات نہیں… مجھے بتاؤ، کیا ہوا؟”
انیزہ کا ضبط… جو برسوں سے سینے میں قید تھا… ایک لمحے میں بکھر گیا۔ اس کے آنسو بےقابو ہو گئے، آواز رندھ گئی، اور دل کا درد لبوں پر آ گیا۔
“دائی جان… میں تھک گئی ہوں… بس بہت تھک گئی ہوں…”
اس کے لفظوں میں ٹوٹا ہوا سا سکون تھا، جیسے وہ برسوں بعد اپنی خاموش چیخ کو آواز دے پائی ہو۔
“مامی کے طنز، ان کی ہر بات میں چھپا زہر، شایان کی نظریں جو مجھے جیتا نہیں چھوڑتیں… ان سب سے مجھے نفرت ہو گئی ہے… خود سے بھی… سب کچھ اندر ہی اندر مجھے کھا رہا ہے، دائی جان… میں ٹوٹ رہی ہوں…”
وہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔ دائی جان کے سینے میں درد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ انیزہ ان کی آنکھ کا تارا تھی، وہ پھول جو ان کے دل کے صحن میں کھلا تھا — نازک، معصوم، اور موسموں کی سختی سے بےخبر۔
“میرے بچے…” دائی جان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، “تم اکیلی نہیں ہو… جب تک یہ بوڑھی جان زندہ ہے، کوئی تجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا۔”
انہوں نے اسے اپنے بازوؤں میں بھر لیا۔ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے جیسے دنیا کا سارا درد اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
لمحہ بھر کو انیزہ ان کے گود میں سمٹ گئی، جیسے برسوں بعد کسی بچے کو اپنی ماں کی آغوش ملی ہو — ایک ایسی آغوش، جو ہر دکھ، ہر زخم، اور ہر دھوکہ مٹا دینے کی طاقت رکھتی ہو۔
کمرے میں خاموشی تھی، مگر جذبات کی تپش ہر چیز کو گرم کر رہی تھی۔ روشنی اب بھی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی، لیکن اس بار وہ روشنی تھوڑی مختلف تھی — جیسے اس میں دائی جان کی دعا کا رنگ شامل ہو چکا ہو، جیسے وہ اجالا اب انیزہ کے دل کے اندھیروں میں اترنے لگا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگینہ بیگم ناشتہ کی میز پر بیٹھی تھیں۔ اُن کی پیشانی پر بل واضح تھے اور زبان بدستور شکوہ سنج۔
“یہ لڑکی، اللہ معاف کرے، دن بدن سر چڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے پورے گھر کی مالک بننے آئی ہو!”
انہوں نے پلیٹ میں انڈے کا آملیٹ رکھتے ہوئے غصے سے کہا۔ ان کی انگلیاں سختی سے چمچ کو جکڑے ہوئے تھیں جیسے وہ اپنی ہی بے بسی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہوں۔
سامنے بیٹھا شایان خاموشی سے ان کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اُس کی نگاہوں میں عجیب سا اطمینان، بلکہ خود پسندی کا رنگ تھا۔ وہ ہولے سے مسکرایا اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔
“امی…” اُس نے کچھ لمحے بعد کہا، آواز میں عجیب سا ٹھہراؤ تھا، جیسے ہر لفظ کے پیچھے کوئی خاص مطلب چھپا ہو۔
“مجھے تو لگتا ہے… آپ کو انیزہ سے حسد ہونے لگا ہے۔”
نگینہ بیگم نے جیسے جھٹکے سے گردن موڑی۔ اُن کی آنکھوں میں حیرت، غصہ اور بے یقینی ایک ساتھ جھلکنے لگا۔
“چپ کر، بدتمیز!” اُن کی آواز میں لرزش تھی، جیسے اس جملے نے انہیں اندر تک چیر دیا ہو۔
“ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ اپنی ماں سے یوں بات کرتا ہے؟”
شایان نے گردن جھکا کر ایک نوالہ توڑ کر پلیٹ میں چٹنی میں ڈبویا اور بڑی بے نیازی سے بولا،
“سچ تلخ ہوتا ہے امی… اور سچ یہ ہے کہ آپ خود بھی جانتی ہیں… انیزہ خوبصورت ہے… اس کی آنکھوں میں ایسی معصومیت ہے کہ انسان چاہے نہ چاہے، رک کر دیکھتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر… وہ کمزور ہے۔ ہر کسی کی ہمدردی بٹورنے کے قابل…”
نگینہ بیگم کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ وہ کچھ دیر تک خاموشی سے اپنے بیٹے کو دیکھتی رہیں، جیسے وہ اس کے چہرے پر چھپے جذبات کو پڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ان کے ہاتھ کی انگلیاں جو ابھی تک میز پر دھڑک رہی تھیں، اب ساکت ہو چکی تھیں۔
“شایان…” اُن کی آواز مدھم ہوئی، مگر سوال اب بھی ان کے لہجے میں چیخ رہا تھا۔
“تم… اُس لڑکی کے بارے میں یوں کیوں سوچتے ہو؟”
شایان نے نظریں نہیں اٹھائیں۔ بس ایک سرد مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو، مگر وقت ابھی نہیں آیا ہو۔
“کیا میں کچھ کہہ رہا ہوں، امی؟” اُس نے معصومیت سے کہا، “میں تو بس حقیقت بیان کر رہا ہوں… باقی آپ کی مرضی، مانیں یا نہ مانیں۔”
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ صرف چائے کے چمچ کی ہلکی سی آواز اور نگینہ بیگم کے دل کی دھڑکن باقی تھی، جو اب دھڑکن سے زیادہ ایک بے چینی کا شور بن چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دائی جان نے نرمی سے انیزہ کے شانے پر ہاتھ رکھا۔
“بچی، تھوڑا آرام کر لو۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ چکے ہیں، یہ تھکن کہیں اندر ہی اندر کچھ توڑ نہ دے۔”
انیزہ نے دھیرے سے مسکرا کر سر ہلایا، مگر اُس کی آنکھوں کی نمی چھپ نہ سکی۔
“نہیں دائی جان، میں کچن سنبھال لیتی ہوں۔”
اُس نے نرمی سے کہا اور خود کو مصروف رکھنے کے بہانے کی طرح چولہے کی طرف بڑھ گئی۔
یہی تو اُس کی سب سے بڑی خوبی تھی — غم کو اپنے ہاتھوں کی مصروفی میں دفن کر دینا۔
برتنوں کی کھنک، پانی کے بہنے کی آواز، چولہے کی آنچ پر چائے کا پتیلا… ایک خاموش جنگ کی طرح سب کچھ جاری تھا۔
تبھی…
دروازے پر اچانک زور کی دستک ہوئی۔
انیزہ ایک لمحے کو چونک گئی۔ چمچ اُس کے ہاتھ سے گرنے کو تھا کہ اُس نے سنبھال لیا۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی۔
دروازہ کھلا، اور اگلے ہی لمحے شایان کی آواز پوری فضا میں گونج اُٹھی:
“امی! پانی!”
آواز میں نہ طلب تھی، نہ ادب — صرف ایک حکم، جیسے کوئی نوکر کو آواز دے۔
انیزہ کی رنگت یکدم زرد ہو گئی۔ وہ جانتی تھی یہ محض اتفاق نہیں، یہ پکار اُس کے لیے ہی تھی — ایک بہانہ، ایک چال، ایک تماشا۔
دائی جان نے پلٹ کر کچن کی دہلیز پر کھڑی انیزہ کو دیکھا، اُس کے چہرے پر چھائی گھبراہٹ کو پڑھ لیا۔ اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھیں۔
“تمھاری زبان پر تالا نہیں لگا کیا؟”
دائی جان کی آواز میں ایسی گرج تھی کہ شایان کے قدم پل بھر کو رک گئے۔
“پانی لینا ہے تو خود جا کے لے لو! یہ گھر کسی نوکرانی کا نہیں، نہ ہی تم بادشاہ ہو!”
شایان نے چند قدم اندر آتے ہوئے طنزیہ قہقہہ لگایا۔
“اوہ… تو اب آپ بھی شیر بننے لگیں؟ دائی جان کے اندر سے بغاوت کی بو آ رہی ہے آج کل!”
دائی جان نے اس کی طرف بڑھ کر نگاہوں کو اُس کے چہرے پر گاڑ دیا۔ اُن کی نگاہوں میں برسوں کا صبر، تلخی، اور اب غصے کی شعلہ بیانی جمع تھی۔
“میں جب چاہوں شیر بن سکتی ہوں، شایان!” اُن کا لہجہ فولادی تھا، “تمھاری یہ بدتمیزیاں، یہ زبردستی کی مسکراہٹیں، اور یہ انیزہ کو ستانے کا سلسلہ… برسوں سے دیکھ رہی ہوں میں۔ مگر اب… اب ایک لمحہ بھی برداشت نہیں ہوگا۔”
شایان کی مسکراہٹ کچھ لمحوں کو رکی، جیسے اس نے دائی جان کو پہلی بار ایک مختلف روپ میں دیکھا ہو۔
انیزہ دروازے کی آڑ میں کھڑی سب دیکھ رہی تھی، مگر زبان جیسے بند تھی۔ اُس نے دائی جان کو پہلی بار یوں شیر کی طرح دہاڑتے دیکھا تھا۔ اُس کے دل میں کہیں روشنی کی ہلکی سی رمق ابھری، جیسے کسی اندھیرے کمرے میں پہلی بار کرن چھنکی ہو۔
شایان نے نگاہ چراتے ہوئے کہا،
“بہت دن ہو گئے تھے کسی کو تیز بولتے سنے، اچھا لگا۔”
مگر اس کے لہجے کی اکڑ اب ویسی نہ تھی، جیسے اندر کچھ لرز گیا ہو۔
دائی جان پلٹی، انیزہ کی طرف دیکھا، اور نرمی سے بولیں،
“بیٹی، اب تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اب میں ہوں، تمھارے ساتھ — ہمیشہ۔”
انیزہ کی آنکھیں چھلکنے کو تھیں، مگر اس بار وہ کمزور نہیں لگ رہی تھی۔
اس بار اُس کے پاس ایک سایہ تھا، جو نہ صرف مضبوط تھا، بلکہ اُس کے حق میں کھڑا بھی ہو چکا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچن میں ہلکی روشنی جل رہی تھی۔ انیزہ چولہے پر دال چڑھائے، آہستہ آہستہ چمچ چلا رہی تھی۔ دِل کہیں اور تھا، ہاتھ جیسے عادت سے چل رہے تھے۔ ماحول میں ایک سنّاٹا سا تھا، جس میں بس دال کے اُبلنے کی ہلکی ہلکی آوازیں تھیں۔
اچانک پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
انیزہ نے چونک کر پلٹ کر دیکھا — شایان دروازے پر کھڑا تھا۔
اس کی آنکھوں میں وہی پرانی شعلہ سی جھلک، لبوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ… جیسے وہ کسی کھیل کا آغاز کرنے والا ہو۔
“امی نظر نہیں آ رہیں، دائی جان بھی اپنے کمرے میں ہوں گی… اور تم… تم ہمیشہ کچن میں، تنہا۔”
اس کی آواز میں ایسا اطمینان تھا جیسے وہ اپنے اختیار پر مطمئن ہو۔
انیزہ نے ایک قدم پیچھے لیا۔ خوف اس کی آنکھوں سے جھانکنے لگا، لیکن وہ اپنی جگہ جم گئی۔
شایان آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا… اور ہاتھ کنڈی کی طرف لے گیا۔
دروازہ بند ہونے کو تھا…
ایک پل، صرف ایک پل کا فاصلہ تھا اُس اور مکمل تنہائی کے درمیان…
تبھی انیزہ کی آواز فضا کو چیر گئی۔
“د…دائی جان!”
اُس کی آواز خوف میں بھیگی ہوئی، لرزتی ہوئی، جیسے اس میں ساری ہمت سمیٹ کر نکالی گئی ہو۔
شایان چونک کر پیچھے ہٹا، جیسے کسی نے اسے دھکا دیا ہو۔ اُس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو حیرت اور غصہ یکجا ہو گئے۔
دوسرے ہی لمحے دائی جان بھاگتی ہوئی کچن میں داخل ہوئیں۔ اُن کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں، آنکھوں میں ایسی چنگاریاں تھیں جو برسوں کے ضبط کی گواہی دے رہی تھیں۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں؟”
ان کی آواز کمرے کی فضا میں گونج گئی، جیسے بجلی چمکی ہو۔
شایان نے پل بھر کو انیزہ کی طرف دیکھا، جو دیوار کے ساتھ لگ کر ساکت کھڑی تھی۔
“ک… کچھ نہیں… میں صرف پانی لینے آیا تھا۔”
اُس نے ہکلاتے ہوئے جھوٹ گھڑنے کی کوشش کی، لیکن دائی جان کی نظریں اُس کے جھوٹ کو چیر گئیں۔
“بس!”
دائی جان کی آواز میں اب گرج تھی،
“اگر آج کے بعد تم اس بچی کے قریب بھی گئے نا، شایان، تو سن لو… میں قسم کھاتی ہوں، نگینہ بیگم سے پہلے تمھارے باپ کو بتاؤں گی — اور وہ تمھیں تمھاری اوقات یاد دلا دیں گے۔”
شایان کی آنکھوں میں غصہ سلگنے لگا۔ اُس نے دانت پیسے، مٹھیاں بھینچیں، لیکن وہ کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گیا۔ اس کے قدموں کی چاپ غصے سے بھری تھی، جیسے زمین پر ہر قدم احتجاج کر رہا ہو۔
کچن میں اب صرف دائی جان اور انیزہ موجود تھیں۔
دائی جان نے آگے بڑھ کر انیزہ کو تھام لیا۔
“ڈرو مت، بیٹی۔ اب وہ تمھیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اب میں تمھارے ساتھ ہوں۔”
انیزہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ کچھ بول نہ سکی، صرف سر ہلایا۔ دِل جیسے شکرگزاری سے بھر گیا ہو، لیکن زخم ابھی بھی رستے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی رات…
اندھیرے کمرے کی چھوٹی سی کھڑکی سے چاند کی دودھیا روشنی اندر آ رہی تھی۔ انیزہ کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی۔ اُس نے پردہ ہٹایا اور آسمان کی طرف دیکھا۔
چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، اور ستارے ایسے لگ رہے تھے جیسے خاموشی سے اس کی باتیں سننے آئے ہوں۔
انیزہ نے آہستہ سے ہاتھ جوڑ لیے، لبوں پر دعا لرزنے لگی۔
“یا اللہ…”
اس کی آواز بے حد نرم، بھیگی ہوئی تھی،
“میری حفاظت فرما۔ مجھے ایسا جہاں عطا کر جہاں عزت ہو، محبت ہو… اور خوف نہ ہو۔”
اُس کے آنسو رخساروں پر بہہ نکلے، لیکن آج اُن میں کچھ بدلاؤ تھا — وہ کمزوری کے آنسو نہیں تھے، وہ رب کے حضور التجا کی نمی تھی۔
چاندنی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی، جیسے رب کی رحمت کا پیغام ہو…
اور انیزہ کے دِل میں پہلی بار امید کی نرم سی شمع ٹمٹمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے آخری پہر کی خاموشی اب دھیرے دھیرے صبح کی ہلکی کرنوں میں تحلیل ہو رہی تھی۔ آسمان پر نیلاہٹ کا پہلا لمس تھا، جیسے کسی نے سیاہ کینوس پر روشنی کی پتلی لکیریں کھینچ دی ہوں۔ ہوا میں نمی کی سی مہک تھی، اور فضا میں ایک عجیب سا سناٹا — نہ مکمل خاموشی، نہ مکمل زندگی۔
انیزہ، سفید دوپٹے میں لپٹی، دائی جان کے کمرے کے دروازے کے باہر زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اُس کے ہاتھوں میں دھاتی جگ تھا، جس سے پانی کی خفیف سی ٹھنڈک اس کی انگلیوں تک سرایت کر رہی تھی۔ اُس کی نظریں دروازے پر جمی ہوئی تھیں، جیسے وہاں سے اُمید کی کوئی کرن پھوٹنے والی ہو۔
اس کی پلکوں پر رات کی جاگی تھکن، اور آنکھوں میں وہی پرانی مانوس اُداسی۔
وہ دل ہی دل میں دعائیں دہرا رہی تھی —
“دائی جان جاگ جائیں… ایک بار بس… ایک بار میری پیشانی پر وہی پرانا شفقت بھرا لمس رکھ دیں…”
وقت گزرتا رہا۔ پر دروازہ ویسا ہی بند رہا۔
کبھی کبھی امید، خاموشی سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔
تبھی، اچانک پورے ماحول میں ایک کرخت آواز گونجی —
“ادھر آنا ذرا، کمرے میں۔”
نگینہ بیگم کی آواز تھی۔
یہ آواز انیزہ کے جسم میں سنسنی بن کر دوڑ گئی۔ وہ جیسے زمین میں دھنس گئی ہو۔
اس کی پشت میں خنجر سا چبھ گیا — وہی لہجہ، وہی زہر، وہی غصے سے لبریز حکم۔
جگ کانپ گیا اس کے ہاتھ میں، لیکن وہ خود کو سنبھال کر اٹھی۔ دھیمے قدموں سے، جیسے ہر قدم میں کوئی صدی بیت رہی ہو، وہ نگینہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھی۔
دوپٹہ سینے پر اور مضبوطی سے لپیٹا، جیسے خود کو کسی غیر مرئی خطرے سے بچا رہی ہو۔
کمرے کے دروازے پر پہنچتے ہی اس نے سر جھکا لیا، اور آنکھیں زمین سے باندھ دیں۔
نگینہ بیگم پلنگ پر بیٹھی تھیں، چہرے پر وہی تنفر، لبوں پر وہی تنقید کی کرچیاں۔
“یہ برتن کچن میں پڑے ہیں صبح سے…”
ان کی آواز کا ہر لفظ جیسے کوڑے کی طرح برس رہا تھا،
“کیا تمہارا کام صرف دائی کے پیروں میں بیٹھے رہنا ہے؟ یا تمہیں یہی سکھایا گیا ہے کہ نوکرانی بن کر ایک بزرگ کے پیچھے سایہ بنی پھرو؟”
انیزہ نے سر ہلکا سا جھکایا، جیسے کسی معافی کی طلبگار ہو — لیکن الفاظ اُس کے گلے میں اٹک گئے۔
وہ خاموش رہی۔ اُس کی خامشی بغاوت نہ تھی، شکست تھی۔ ایک ایسی شکست، جس میں خودداری ابھی باقی تھی۔
نگینہ بیگم کو اس خاموشی سے جیسے اور غصہ آیا۔
“میں جانتی ہوں، تمہیں دائی جان نے سر چڑھا لیا ہے۔ پر یاد رکھو، اس گھر کی مالکن میں ہوں۔ تمہارا حساب بھی مجھ سے ہوگا۔”
انیزہ نے آہستگی سے پلکیں اٹھائیں، ایک لمحے کو آنکھیں نگینہ بیگم کے چہرے پر جا ٹھہریں —
پر اُن میں نفرت یا جواب نہ تھا، صرف ایک سوال تھا:
“کب تک؟”
پھر اُس نے نظریں جھکائیں، اپنے قدم بڑھائے، اور خاموشی سے برتن سمیٹنے لگ گئی۔
برتنوں کی آواز اب گھر کے سکوت میں گونج رہی تھی — جیسے ہر ٹن ٹن پر اس کے جذبات بج رہے ہوں۔
دور چڑھتا سورج آسمان پر پھیلنے لگا،
لیکن انیزہ کے دل پر ابھی رات تھی… طویل… سیاہ… اور صبر سے بھری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچن کی نل سے بہتا پانی مسلسل شور کر رہا تھا، مگر انیزہ کے کانوں میں ایک اور آواز گونج رہی تھی—
ایک سرگوشی، جو اندر ہی اندر طوفان اٹھا رہی تھی۔
“تم بہت بدل گئی ہو انیزہ… پہلے تم مجھ سے ڈرتی تھیں، اب نظر چرا لیتی ہو؟”
شایان کی وہ دھیمی، زہر بھری آواز جیسے اب بھی اس کے کانوں کے قریب سرسراتی ہو،
جیسے کسی ناگ نے آہستگی سے پھُکار ماری ہو۔
انیزہ کے ہاتھ رکے۔
برتن کی سطح پر جھاگ جم گئی، پانی بہتا رہا، مگر وہ جیسے کسی اور ہی لمحے میں قید ہو گئی تھی۔
اُس رات… وہ لمحہ… جب شایان کمرے کے دروازے پر نمودار ہوا تھا۔
اندھیرے میں اس کا وجود کسی سایے کی طرح ابھرا تھا — خاموش، لیکن خطرناک۔
اس نے بس اتنا کہا تھا…
“تم بہت بدل گئی ہو انیزہ…”
اور اس کی آنکھیں… وہ آنکھیں جو پہلے صرف حقارت سے دیکھتی تھیں،
اب کسی اور نیت کا عکس دکھا رہی تھیں — جیسے شکار کو پہلے ڈرانا، پھر جھکانا ہو۔
“پہلے تم مجھ سے ڈرتی تھیں… اب نظریں چرا لیتی ہو؟”
یہ جملہ انیزہ کے اندر سوئی ہوئی سسکیوں کو جگا گیا تھا۔
اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
اس نے فوراً نظریں جھکا لی تھیں، جیسے اپنے وجود کو نظرِ بد سے بچا رہی ہو۔
لیکن شایان کی وہ نظریں…
وہ نظروں کا بوجھ…
وہ لفظوں کے اندر چھپی دھمکی…
یہ سب اس کے دل میں خوف کی تہیں بچھا گیا تھا۔
کچن میں کھڑے ہو کر، اب وہ وہی منظر بار بار ذہن میں دہرا رہی تھی۔
اس کے ہاتھوں میں جھاگ جیسے خون کی طرح سرخ ہو گئے ہوں —
نہیں، اصل میں وہ اس کا دل تھا جو گھُل رہا تھا،
ہر لمحہ، ہر لفظ کے زہر سے۔
شایان…
نگینہ بیگم کا لاڈلا،
بچپن سے ہر بات منوانے والا،
ہر چیز پر حق جتانے والا۔
وہ جانتا تھا کہ انیزہ خاموش ہے، مجبور ہے، اکیلی ہے۔
وہ جانتا تھا کہ انیزہ کے پاس کوئی پناہ نہیں —
سوائے دائی جان کے،
اور وہ بھی اب بوڑھی ہو چکی تھیں، کمزور ہو چکی تھیں۔
اور یہی جان کر شایان دن بہ دن آگے بڑھ رہا تھا —
چپ چاپ، مگر خطرناک انداز میں۔
انیزہ کے لیے یہ کچن اب عبادت گاہ بن گیا تھا —
جہاں وہ خود کو کام میں کھو کر،
اپنے دکھوں کو دھو کر،
اپنی آنکھوں کے طوفان چھپا رہی تھی۔
لیکن کب تک؟
کب تک وہ نظر چرا کر، خاموش رہ کر، خود کو بچا پائے گی؟
شایان کا سایہ اب اس کی دیواروں پر بھی پڑنے لگا تھا۔
اس کے قدموں کی آہٹ اب سیڑھیوں سے پہلے دل کی دھڑکنوں میں سنائی دینے لگی تھی۔
اور انیزہ…
اب روز اس لمحے کے انتظار میں جیتی تھی —
جب وہ اپنی کمزوری سے نکل کر،
کسی غیر مرئی طاقت سے کہہ سکے:
“بس! اب اور نہیں!”
مگر اُس دن کی آمد ابھی دور تھی…
فی الحال وہ صرف برتن دھو رہی تھی،
اور اپنی پلکوں کے نیچے چھپے آنسو… کسی کو دکھائے بغیر بہا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال میں نرم دھوپ آہستہ آہستہ قالین پر پھیل رہی تھی، جیسے سورج بھی آج کا آغاز سکون سے کرنا چاہتا ہو۔
درخشاں بیگم ناشتہ کی میز پر جھکی، پلیٹیں ترتیب سے رکھ رہی تھیں —
چائے کی کیتلی سے بھاپ اٹھ رہی تھی، پراٹھے کی خوشبو میں ماں کی محنت گھلی تھی،
اور ہر چیز میں وہ مانوس سی چاہت تھی جو صرف ایک ماں ہی اپنے بچوں کے لیے سجا سکتی ہے۔
سامنے صوفے پر بیٹھا عاریز، سفید شرٹ کے کف موڑتے ہوئے، موبائل اسکرین پر جھکا ہوا تھا۔
اس کی انگلیاں کی بورڈ پر تیزی سے چل رہی تھیں، چہرے پر وہی مصروفی کی چھاپ،
جیسے ماں کے ہاتھوں کی سجی یہ صبح اس کی ترجیحات میں کہیں بھی شامل نہ ہو۔
درخشاں بیگم نے ایک نظر اسے دیکھا —
آنکھوں میں ایک لمحے کو وہی پرانا فخر چمکا،
کہ اس کا بیٹا آج کامیاب ہے، مصروف ہے،
مگر اس چمک میں فوراً ایک دھند سی اتر آئی…
جیسے دل کے کسی کونے میں برسوں سے کچھ ادھورا رہ گیا ہو۔
“آج بھی دیر ہو جائے گی؟”
انہوں نے نرمی سے، آہستہ سے پوچھا — جیسے کوئی سوال نہیں، بلکہ دعا ہو کہ جواب ‘نہیں’ ہو۔
عاریز نے پل بھر کو سر اٹھایا،
“میٹنگز ہیں، اور شاید آج ڈنر بھی باہر کا ہو مام۔”
اس نے مختصر سا جواب دیا، جیسے صرف اطلاع دی جا رہی ہو، احساس نہیں۔
درخشاں بیگم کچھ لمحے خاموش رہیں۔
انہوں نے چائے کے کپ کی جگہ درست کی،
پھر انگلیوں سے نپکن کو ہموار کیا —
ان حرکات میں وہ بےچینی جھلک رہی تھی،
جو لفظوں سے پہلے دل میں آتی ہے۔
آخرکار، وہ خاموشی توڑ بیٹھیں۔
“بیٹا… میں نے بس ایک بات کرنی ہے… دل پہ نہ لینا۔”
عاریز نے بھنویں چڑھائے، موبائل کو تھوڑا نیچے کیا۔
“ہوں؟ بولیں مام۔”
درخشاں بیگم نے ایک گہرا سانس لیا۔
ان کی آواز اب پہلے سے قدرے بھاری تھی،
“اب زندگی کو سنجیدہ لینا سیکھو، عاریز۔”
عاریز کی پیشانی پر ایک خفیف سی شکن ابھری۔
“مام، پھر وہی؟”
“ہاں، پھر وہی…”
درخشاں بیگم اب سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں،
“سارا دن آفس، دوست، پارٹی۔۔۔ اور جب گھر آتے ہو تو یوں لاپرواہی سے جیسے یہ گھر صرف آرام کا کمرہ ہے۔
تم نے کبھی پلٹ کر دیکھا ہے کہ یہ میز روز کس کے انتظار میں سجتی ہے؟
کون ہر شام تمہارے قدموں کی آواز سننے کے لیے کان لگا کر بیٹھا ہوتا ہے؟”
عاریز نے نظریں چرا لیں،
مگر ماں کے لفظ، تیر بن کر دل میں اتر رہے تھے۔
“تم جب چھوٹے تھے نا، تو ہر بات مجھ سے کرتے تھے…
آج تمہاری ہر بات موبائل اور میٹنگز سے بندھی ہوئی ہے۔
میں تمھارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں بننا چاہتی، بیٹا…
بس اتنا چاہتی ہوں کہ تم اس گھر کو، اس رشتے کو بھی تھوڑا وقت دو۔”
عاریز نے چپ چاپ چائے کا گھونٹ لیا۔
پھر جیسے بے بسی سے بولا،
“مام پلیز… آج نہ کریں… صبح صبح لیکچر نہیں۔”
درخشاں بیگم نے ہونٹ بھینچ کر آنکھیں جھکالیں۔
ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے پر وہی خاموشی چھا گئی،
جو تب آتی ہے جب ماں کی بات صرف سنی جائے، سمجھی نہ جائے۔
انہوں نے آہستہ سے سر ہلایا، جیسے دل خود کو سمجھا رہا ہو ۔
“ٹھیک ہے… پھر کل سہی۔”
پھر وہ میز کی سمت متوجہ ہو گئیں۔
ان کے ہاتھ چائے کی پیالی میں چینی گھولنے لگے،
مگر آنکھیں کہیں اور تھیں —
شاید اُس وقت میں جو کبھی واپس نہیں آتا۔
اور عاریز…
وہ پھر موبائل کی اسکرین میں کھو گیا،
بےخبر اس ایک آنسو سے،
جو درخشاں بیگم کی پلکوں سے گرا،
اور چینی کے ساتھ چائے میں گھل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کی اذان کے بعد کا وقت، گھر میں ایک خاص سکون لے کر آیا تھا۔
فضا میں جیسے عبادت کی مہک بسی ہوئی تھی۔
ٹی وی لاؤنج کی مدھم روشنی، فرشی نشست پر بچھے قالین، اور قریب رکھی تسبیحوں کی ہلکی چھنک —
سب کچھ روح کو قرار دینے والا تھا۔
سب گھر والے اپنے معمولات میں مصروف تھے۔
درخشاں بیگم تکیہ تھامے کسی ریسپی شو پر ہنوز نگاہ جمائے بیٹھی تھیں،
نگینہ بیگم خاموشی سے اخبار کے صفحات الٹ پلٹ کر رہی تھیں،
اور کمرے کی ایک جانب، فرش پر دائی جان کے ساتھ بیٹھی انیزہ، خاموشی سے تسبیح پڑھ رہی تھی۔
اس کی انگلیاں تسبیح کے دانے آگے بڑھا رہی تھیں،
مگر دل کسی اور ہی گنتی میں الجھا تھا —
دھڑکنوں کی بےترتیبی، احساس کی جھرجھری، اور آنکھوں میں چھپا کوئی نامعلوم خوف۔
اس کا دل جیسے بار بار کسی آہٹ سے لرز جاتا…
شاید کوئی اندیشہ، جو لفظوں میں نہیں ڈھلتا،
بس دل میں سرسراتا رہتا ہے —
انجانا، ان دیکھا، مگر بہت حقیقی۔
تب ہی صوفے کے عقب سے شایان گزرا۔
اس کی چال میں وہی اعتماد، وہی بےنیازی تھی —
اور اس کی نظریں جیسے نشانے پر ہوں۔
چند لمحوں کو وہ انیزہ پر رکا،
اس کی آنکھیں انیزہ کے چہرے میں کچھ تلاش کرتی لگیں…
خوف؟ نرمی؟ شاید وہ خاموشی جو کمزوری کا دوسرا نام ہوتی ہے۔
انیزہ نے جھٹ نظریں جھکا لیں۔
سانس جیسے کہیں اٹک گئی ہو۔
اس کا ہاتھ تسبیح پر ٹھٹک گیا۔
“بیٹے، ذرا یہ پانی کا جگ رکھ دینا اندر۔”
دائی جان کی آواز نے لمحے کی سنگینی توڑی۔
“جی نانو، ابھی آیا۔”
شایان نے انیزہ پر ایک اور نظر ڈالی،
اور پھر جگ اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
شایان کی پشت جاتی رہی، مگر انیزہ کو لگا جیسے اس کا سایہ اب بھی اس کے اردگرد منڈلا رہا ہو۔
اس نے تسبیح دوبارہ تھامی، مگر دل کی دھڑکن قابو میں آنے میں وقت لے رہی تھی۔
رات کے آخری پہر، گھر پر خاموشی کی چادر تن چکی تھی۔
در و دیوار جیسے سونے لگے تھے،
مگر دائی جان کے کمرے میں ایک ماں کی ممتا جاگ رہی تھی۔
انیزہ دائی جان کے پاؤں دبا رہی تھی۔
اس کے ہاتھوں کی حرکت آہستہ، بےجان سی تھی —
جیسے وہ خود اپنے خیالوں میں گم ہو،
یا جیسے ہر دباؤ کے ساتھ اپنے دل کا بوجھ بھی کم کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔
دائی جان نے اسے غور سے دیکھا۔
“بیٹا، تم ٹھیک ہو؟ آج دن بھر سہمی سہمی لگ رہی تھی۔”
انیزہ نے چونک کر سر ہلایا،
“جی… کچھ نہیں دائی جان۔ بس تھکاوٹ ہے شاید۔”
دائی جان کے چہرے پر شفقت سے بھری وہ مسکراہٹ آئی،
جو صرف وہ عورتیں لاتی ہیں جنہوں نے عمریں پرکھنے میں گزاری ہوں۔
“تم جانتی ہو نا، میں سب سمجھتی ہوں؟”
اس ایک جملے نے جیسے انیزہ کے اندر کی ساری مضبوطی توڑ دی۔
اس کے ہاتھ رک گئے، سانس بھاری ہو گئی،
اور آنکھیں وہ بوجھ نہ سہار سکیں جو دل برسوں سے اٹھا رہا تھا۔
وہ آہستگی سے دائی جان کی گود میں سر رکھ کر سسکنے لگی۔
“کب ختم ہو گی یہ تنہائی، دائی جان؟
کیا کبھی میرا بھی کوئی گھر ہو گا؟
جہاں میرا کوئی انتظار کرے،
میری ہنسی پر کوئی خوش ہو،
جہاں میں سانس لوں… اور خوف نہ ہو؟”
دائی جان کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی۔
انہوں نے انیزہ کے سر پر ہاتھ پھیرا،
“ہو گا بیٹا… انشاءاللہ ضرور ہو گا۔
وہ جہاں تمہارا ہو گا… صرف تمہارا۔
تمہارا اپنا۔ تمہارا جہاں۔”
کمرے میں خاموشی چھا گئی —
مگر وہ خاموشی سناٹے جیسی نہیں تھی…
بلکہ دعا کی سی تھی…
ایک ایسی دعا، جو ماں کی گود میں، کسی یتیم سی بچی کی سسکیوں کے بیچ مانگی گئی تھی۔
اور باہر آسمان پر، ایک ستارہ آہستہ سے ٹمٹما کر بجھ گیا —
شاید وہ سن رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 3
رات کا پہلا پہر تھا۔
آسمان پر تنہا چمکتا چاند، جیسے شب کی اداسی کا گواہ ہو۔ فضا میں عجیب سا سکوت طاری تھا، ایسا سناٹا جیسے وقت نے بھی اپنی سانسیں روک لی ہوں۔ تیز ہوائیں نہیں چل رہی تھیں، مگر کھڑکی کے پردے پھر بھی ہولے ہولے لرز رہے تھے—شاید چاندنی ان کے سنگ رقص کر رہی تھی یا کسی انجانی آہٹ نے انھیں چمکادیا تھا۔
انیزہ، جو ابھی ابھی دائی جان کے کمرے سے نکلی تھی، ننگے قدموں، دبے قدموں، اپنے کمرے کی طرف لوٹی۔ دائی جان کا کمرہ جیسے عبادت گاہ ہو، جہاں ہر شب تسبیح کے دانے نیند کے ہالے میں گم ہو جاتے تھے، جہاں ذکر کی خوشبو سانسوں میں بستی تھی۔ وہاں سے نکلتے ہی جیسے دنیا کا بوجھ دوبارہ اس کے ناتواں کندھوں پر آن گرا۔
وہ اپنے کمرے کے ایک تاریک کونے میں جا بیٹھی۔ ڈائری اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہی پرانی، سنبھالی ہوئی ڈائری جس میں اس کے دل کے سب راز دفن تھے۔ آنکھوں میں ایک اداسی تھی، اور ہاتھوں میں ایک لرزش۔ قلم کو کاغذ پر رکھ کر وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، بہت کچھ لکھنا…
مگر لفظوں نے پہلے ہی ہار مان لی تھی۔
“کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں محض ایک سایہ ہوں…
بےصدا… بےرنگ… بےچہرہ…
جو سب کے درمیان رہ کر بھی کہیں نہیں ہوتا۔”
لفظ سیاہی سے زیادہ آنسوؤں سے بھیگے لگ رہے تھے۔
ابھی اس نے چادر کے کونے سے بہتے آنسو پونچھے ہی تھے کہ… دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
ایک جھرجھری سی اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔
دروازے کی طرف نظر اٹھی—آہٹ اتنی مدھم تھی کہ شاید وہم ہوتا، مگر پھر آواز آئی:
“کون؟”
آواز اس کی اپنی تھی، پر جیسے کسی اور نے نکالی ہو، مدھم، ڈری ہوئی، سہمی ہوئی۔
“میں ہوں… شایان!”
ایک پل کو کمرے کی تمام فضا جیسے جم گئی۔
چاندنی کا نور بھی جیسے ٹھٹک کر رک گیا۔
فضا میں موجود خاموشی نے سہم کر خود کو لپیٹ لیا۔
شایان؟
اس وقت؟
رات کے اس گہرے پہر؟
کیوں؟
انیزہ کا دل اچانک، بےترتیب دھڑکنے لگا—جیسے کسی نے سینے کے اندر زور سے دستک دی ہو۔
دروازہ بند تھا، مگر ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی سانسیں باہر کھڑے شایان کے ساتھ الجھ گئی ہوں۔ خوف کا ایک سایہ دیواروں پر رینگنے لگا، اور چاندنی اب ڈراؤنی لگنے لگی۔
“ک… کیا کام ہے؟”
اس نے کوشش کی کہ آواز مضبوط ہو، مگر لرزش الفاظ میں رس چکی تھی۔
“بس ایک بات کرنی ہے… کھولو دروازہ!”
انیزہ کے ہاتھ کپکپانے لگے۔ نہیں… یہ مناسب نہیں… یہ درست نہیں…
خوف، غیر یقینی، اور ماضی کی وہ ساری ناگوار جھلکیاں ایک دم ذہن پر چھا گئیں۔
“نہیں… صبح بات کریں گے۔”
اس کے لہجے میں انکار سے زیادہ التجا تھی۔
دروازے کی دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔ مگر یہ خاموشی عام نہ تھی…
ایسی خاموشی جو کچھ کہہ رہی ہو، کچھ دکھا رہی ہو، جیسے لکڑی کے اس دروازے کے پار شایان کی گہری سانسیں لکڑی کی رگوں میں اتر کر سرگوشی کر رہی ہوں۔
کئی لمحے گزرے… اور پھر…
آہٹ آہستہ آہستہ دور جانے لگی۔ قدموں کی چاپ جیسے کمرے سے خوف کو دھکیلتی باہر لے جا رہی ہو۔
انیزہ وہیں کھڑی رہی۔
پھر کانپتے ہاتھوں سے دروازے کی چٹخنی دوبارہ بند کی—جیسے اپنے دل پر کوئی پہرہ بٹھا رہی ہو۔
واپس پلٹی تو اس کے پیر جیسے زمین میں دھنس گئے تھے۔ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
ڈائری ایک طرف گر گئی تھی…
قلم کب چھوٹا، اسے ہوش نہ رہا۔
دل اب بھی ہتھوڑے کی طرح دھڑک رہا تھا…
لیکن آنکھوں میں اب آنسو نہیں، ایک عجیب سی بےیقینی تھی—جیسے وہ لمحہ سچ تھا یا خواب؟
اور اگر خواب تھا… تو یہ خوف کیوں ابھی تک ساتھ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی روشنی نے کمرے کی دیواروں پر مدھم سایے بکھیر دیے تھے۔ چاندنی رات کا ہراساں لمحہ اب پیچھے چھوٹ چکا تھا، مگر اس کا اثر اب بھی انیزہ کے دل کی دھڑکنوں میں ہولے ہولے گونج رہا تھا۔ وہ گہری نیند میں تھی، جیسے جسم تھکن سے ٹوٹا ہو، جیسے روح نے رات کی لرزش کو سہارنے کے بعد خود کو کسی خالی خلا میں پناہ دی ہو۔
“اُٹھو! کافی دیر ہو گئی!”
نگینہ بیگم کی تیز، کرخت آواز نے فضا کا سکون چیر کر رکھ دیا۔
ایسا لگا جیسے نیند کی نرم چادر پر کوئی نوکیلا خنجر چل گیا ہو۔
انیزہ نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی،
اور ماحول کی تلخی کا پہلا زہر اسی لمحے حلق میں اترا۔
دروازے کے پاس کھڑی نگینہ بیگم کا چہرہ بدستور سخت، آنکھوں میں وہی جھلاہٹ، وہی بےزاری،
جیسے انیزہ کا سانس لینا بھی ان کے مزاج پر بوجھ ہو۔
“مہمان آنے والے ہیں۔ تمہاری یہ ادھ کھلی آنکھیں اور یہ بکھرے بال… دیکھو، کسی کی نظروں میں کانٹا بننے کی ضرورت نہیں!”
ان کے الفاظ طنز سے زیادہ حکم تھے—وہی بےرحم اصول جو برسوں سے انیزہ کی سانسوں پر مسلط تھے۔
“جی… مامی…”
سر جھکائے انیزہ نے بس اتنا کہا۔
جیسے دل چاہتا ہو کہ کچھ اور بولے، مگر لفظ حلق میں پھنس گئے۔
وہ خاموشی سے بستر سے اتری، اپنے دوپٹے کو درست کیا، اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے کچن کی طرف چل دی۔
کچن میں دائی جان مصروف تھیں—چائے کے برتن، پیالیاں، ٹرے میں رکھی خستہ بسکٹوں کی پلیٹ…
مگر ان سب کے بیچ وہی پرانا سکون، وہی بےنام محبت، جس کا وجود صرف دائی جان اور انیزہ کے درمیان تھا۔
دائی جان نے جیسے ہی انیزہ کو دیکھا، چہرے پر ایک مہربان سی روشنی پھیل گئی۔
انہوں نے چائے کا چمچ رکھ کر اس کے قریب آ کر ہولے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“میری گڑیا… جا کے تھوڑا آرام کر لو۔ رات بھر جاگتی رہی ہو، آنکھوں کے نیچے سائے پڑ گئے ہیں۔ میں سب سنبھال لوں گی۔”
انیزہ کے ہونٹوں پر ایک کمزور سی مسکراہٹ ابھری—ایسی مسکراہٹ جو شکرگزاری کی گہرائی سے نکلی تھی،
مگر آنکھوں میں اب بھی ایک انجانی بےچینی باقی تھی۔
“نہیں دائی جان… آج مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے۔”
اس کی آواز دھیمی تھی مگر لہجے میں ایک عجیب سی ضد تھی—شاید تحفظ کی، شاید محبت کی، یا شاید اپنی ہی بکھری ہوئی دنیا کو کسی پیار بھری چھاؤں میں سمیٹنے کی۔
ایک لمحے کو دونوں خاموش ہو گئیں۔
چائے کی کیتلی کی سیٹی، برتنوں کی کھنک، اور دور سے آتی قہقہوں کی آوازوں کے بیچ
ان دو عورتوں کے درمیان خاموش محبت کا ایک چمکتا لمحہ جنم لے چکا تھا۔
ایسا لمحہ جو زبان سے نہیں، آنکھوں سے بولا گیا…
جو جذبات سے نہیں، احساس سے محسوس ہوا…
جیسے رات بھر کی تاریکی میں کہیں سے ایک چھوٹا سا ستارہ ٹمٹما اٹھا ہو — دھند، غم اور کٹھنائیوں میں روشنی کی ایک ہلکی سی جھلک۔
دائی جان نے بس اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
“تو پھر آج میری گڑیا میرے ساتھ رہے گی۔”
یہ جملہ گویا دل کی کسی دراڑ میں مرہم بن کر اتر گیا۔
انیزہ نے چائے کی ٹرے سنبھال لی۔
اس کی کمر سیدھی تھی، قدموں میں خودداری تھی، اور دل میں دائی جان کے لمس کی حرارت—
جس نے ایک بار پھر اسے ٹوٹنے سے بچا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار پر نصب گھڑی کی ٹک ٹک فضا کو چیرتی محسوس ہو رہی تھی۔ درخشاں بیگم، اپنی مخصوص کشمیری شال میں لپٹی، کھڑکی کے پاس کھڑی بیرونی منظر میں کھوئی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی، جیسے دل میں کوئی ایسا فیصلہ پک چکا ہو، جسے لفظوں میں ڈھالنا آسان نہ ہو۔
دروازہ کھلا، اور عاریز اندر داخل ہوا۔
صاف ستھرا لباس، الجھے بال، اور آنکھوں میں وہی بدلا بدلا سا اضطراب…
اسے دیکھ کر درخشاں بیگم چونک سی گئیں، جیسے کسی سوچ کی ڈوری اچانک ٹوٹ گئی ہو۔
“مام، کوئی خاص بات؟”
عاریز نے قریب آ کر پوچھا، اور اپنے مخصوص انداز میں سوفے پر بیٹھ گیا—مگر اس بار چہرے پر الجھن اور لہجے میں بےچینی واضح تھی۔
درخشاں بیگم آہستگی سے اس کے قریب آئیں، سوفے کے کنارے بیٹھتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
ان کی آواز غیر معمولی حد تک نرم اور سنجیدہ تھی:
“بیٹھو… آج کی بات دل سے ہے، ضد سے نہیں۔”
یہ جملہ کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔
عاریز چونک کر ان کی جانب متوجہ ہوا، جیسے اندر ہی اندر کچھ ٹوٹا ہو، یا پھر کسی انجانے اندیشے نے دل کے دروازے پر دستک دی ہو۔
“مام، پلیز… اگر پھر سے شادی کی بات ہے تو—”
اس نے نظریں چرا کر بات کاٹنی چاہی، مگر درخشاں بیگم کی نظریں اس پر جم چکی تھیں۔
“عاریز…”
انہوں نے گہرا سانس لیا، آنکھوں میں نمی چھپا کر کہا،
“اس بار بات دل سے ہے، ضد سے نہیں۔ وہ لڑکی… آمیزہ… جسے تم نے ایک وقت میں صرف چیلنج سمجھا، ایک ضد، ایک کھیل… وہ آج تمہارے بابا کی فرم میں کام کر رہی ہے۔”
کمرے کی فضا جیسے پل بھر کو ساکت ہو گئی۔
عاریز کا جسم سن ہو گیا۔
“کیا؟ آمیزہ؟”
لفظ جیسے حلق سے مشکل سے نکلے، جیسے ماضی نے سینے پر وزن رکھ دیا ہو۔
درخشاں بیگم نے اپنی گرفت مضبوط کی۔
“ہاں… وہی آمیزہ۔ آج وہ تمہارے سامنے ہوگی، مگر وہ وہی لڑکی نہیں رہی… جو کبھی تمہارے الفاظ سے ٹوٹ جایا کرتی تھی۔ وہ اب خود پر یقین رکھتی ہے، زندگی سے لڑنا سیکھ چکی ہے۔”
عاریز کی نظروں میں ایک بھولا بسرا عکس ابھر آیا۔
وہ ہنستی تھی، مگر آنکھوں میں آنسو ہوتے تھے۔
وہ لڑتی تھی، مگر کمزور آواز میں۔
وہ محبت کرتی تھی، مگر بےیقینی کے ساتھ۔
درخشاں بیگم کی آواز میں گہری ماں جیسی دانائی تھی:
“بیٹا… کبھی کبھی زندگی ہمیں وہاں دوبارہ لے آتی ہے، جہاں ہم نے غلط موڑ کا انتخاب کیا ہوتا ہے… تاکہ ہم جان سکیں کہ درحقیقت کس طرف جانا تھا۔”
عاریز کی نظریں خلا میں گم تھیں۔
وہ آمیزہ کی آخری ملاقات یاد کر رہا تھا—اس کی نم آنکھیں، وہ روکتے ہوئے قدم، وہ نہ کہا گیا جملہ جو دونوں کے بیچ معلق رہ گیا تھا۔
“مام…”
اس کی آواز رُک گئی۔
“اگر وہ مجھ سے نفرت کرتی ہو تو؟”
درخشاں بیگم نے مسکرا کر سر ہلایا۔
“تو شاید تمہاری سزا بھی یہی ہے کہ تمہیں ہر روز اس کی آنکھوں میں وہ نفرت دیکھنی پڑے… یہاں تک کہ تم اس نفرت کی تہہ میں چھپی محبت کو پہچان سکو۔”
خاموشی…
صرف گھڑی کی ٹک ٹک باقی رہ گئی،
اور عاریز کے چہرے پر وہ بےچینی، جو کسی نئی شروعات سے پہلے دل کو جکڑ لیتی ہے۔
ایک نیا موڑ،
ایک پرانا چہرہ،
اور دل میں چھپی ایک پرانی، ادھوری کہانی…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ڈھلی، گھر کے آنگن میں خاموشی اتر چکی تھی۔
مہمانوں کی چہل پہل، چائے کی مہک، اور رسمی مسکراہٹوں کا شور اب ماضی کا حصہ بن چکا تھا۔
گھر کا در و دیوار جیسے تھکن سے چور ہو چکا ہو، ہر شے تھمی تھمی سی لگ رہی تھی۔
انیزہ اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچی تو اُس کے قدم ایک دم رُک گئے۔
کمرے میں جلتا ہوا زرد بلب اور اُس کے بیچوں بیچ کھڑا شایان…
ایک سائے کی مانند، مگر خطرناک حد تک حقیقی۔
“شایان؟… تم یہاں؟”
اُس کی آواز میں حیرت بھی تھی، خوف بھی… اور ایک انجانی بدگمانی بھی۔
شایان نے سرد لہجے میں طنز کا زہر انڈیلا:
“ڈرامے بند کرو انیزہ! سب جانتے ہیں تم کس نیت سے یہاں رہ رہی ہو! رحم دل یتیم؟ یا معصوم شہزادی؟”
انیزہ کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
وہ دو قدم آگے بڑھی، لرزتی آواز میں غرائی:
“بکواس بند کرو اور فوراً نکلو میرے کمرے سے!”
مگر شایان، جو اب تک صرف لفظوں سے زہر اُگل رہا تھا،
اچانک آگے بڑھا، اور اس کا بازو سختی سے تھام لیا۔
“سچ برداشت نہیں ہو رہا تم سے ؟ جانتی ہو، تم جیسی لڑکیاں۔۔۔۔!”
وہ اپنی غلط تربیت  کا اثر دکھا رہا تھا جبکہ وہ ڈری سہمی اپنے لب بھینچے بولنے لگی ۔
“چھوڑو مجھے!”
انیزہ نے پوری قوت سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی۔ اُس کی آواز کپکپاتی ہوئی تھی، مگر اُس کے ارادے فولاد کی طرح مضبوط۔
اچانک—
دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ کھلا۔
دائی جان کا چہرہ دروازے میں نمودار ہوا۔
آنکھوں میں غصے کے شعلے تھے، اور پیشانی پر گہری لکیر۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں؟”
آواز آسمانی کڑک کی مانند تھی۔
شایان جیسے زمین میں دھنس گیا ہو۔
اس کے قدم پیچھے ہٹے، نظریں جھک گئیں۔
دائی جان کی نگاہوں نے اُسے جیسے جکڑ لیا ہو۔
“میں… میں بس… وہ—”
لفظ اُس کے لبوں پر دم توڑ گئے۔
بنا کچھ کہے، وہ شرمندگی اور خفت کے سمندر میں غرق، کمرے سے نکل گیا۔
چند لمحے مکمل خاموشی میں گزرے۔
انیزہ دیوار سے لگ کر نیچے بیٹھ گئی، اُس کی آنکھوں سے بےآواز آنسو بہنے لگے۔
سسکیوں میں چھپی بےبسی، دل میں دبی ہوئی چیخیں بن چکی تھی۔
دائی جان دھیرے دھیرے آگے آئیں،
اور اُس کے پاس بیٹھ کر اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
ایسا سینہ، جو برسوں سے ماں کا خلا پر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایسی باہیں، جن میں صرف تحفظ تھا، صرف محبت۔
“بس! اب بہت ہو گیا، انیزہ…”
دائی جان کی آواز میں وہ فیصلہ تھا جو صرف محبت کر سکتی ہے۔
انیزہ نے بھیگی آنکھوں سے اُن کی طرف دیکھا۔
“کیا اب میں بھی بوجھ بن چکی ہوں، دائی جان؟”
دائی جان نے اُسے زور سے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔
“نہیں میری بچی… تم بوجھ نہیں ہو، تم چراغ ہو، روشنی ہو… مگر اس اندھیرے میں اب مزید نہیں جلنے دوں گی تمہیں۔”
دائی جان کی آنکھوں میں نمی اور لبوں پر عزم تھا۔
“اب تم یہاں نہیں رہو گی… تمہاری نئی دنیا تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ وہ دنیا جہاں تمہاری عزت ہوگی، تمہاری شناخت ہوگی۔”
انیزہ کی سسکیاں آہستہ آہستہ تھم گئیں،
اور دل کے کسی کونے میں ایک نئی اُمید کا ننھا سا چراغ جل اُٹھا۔
وہ رات…
نہ صرف ایک خوف کا خاتمہ تھی،
بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دفتر کا ماحول رسمی تھا، لیکن سرد۔
سفید دیواریں، سنہری فریموں میں لٹکی کامیابیوں کی تصاویر، دبے دبے قدموں کی چاپ، اور کی بورڈ پر انگلیوں کی تیز تھپتھپاہٹ۔
سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
لیکن پھر—
وقت جیسے لمحے بھر کو رُک گیا۔
عاریز فائل دیکھتے ہوئے جب ریسپشن کی طرف مڑا،
تو اُس کی نگاہیں کسی معمولی چہرے سے نہیں،
اپنے گزشتہ زخم سے جا ٹکرائیں۔
وہ… آمیزہ تھی!
وہی وقار، وہی آنکھوں میں بھری چمک،
لیکن اب اُن میں بےنیازی بھی تھی، تلخی بھی… اور ایک چیلنج بھی۔
عاریز کے قدم رُک گئے۔
اُس کے ہاتھ میں تھامی فائل جیسے اپنا وجود کھو بیٹھی۔
“تم؟”
آواز دھیمی تھی، مگر حیرت کی گونج واضح تھی۔
آمیزہ نے گردن ہلکی سی موڑ کر اُسے دیکھا۔
لبوں پر ایک ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ ابھری، جیسے کسی خواب کی شکست کا مذاق اڑا رہی ہو۔
“جی… بدقسمتی سے۔”
اُس کا لہجہ نرم نہیں تھا۔
یہ اُن لفظوں کی چوٹ تھی جو برسوں خاموش رہ کر تیز دھار بن چکے تھے۔
عاریز نے نظریں سمیٹنے کی کوشش کی،
مگر وہ نظریں جیسے ماضی کے آئینے میں قید ہو گئی ہوں۔
“تو قسمت نے پھر کھیل چھیڑ دیا ہے؟”
اس بار اُس کا لہجہ نیم طنزیہ اور نیم بےبس تھا، جیسے وہ خود بھی نہیں سمجھ پایا کہ یہ اتفاق ہے یا امتحان۔
آمیزہ نے چند قدم آگے بڑھ کر کانفیڈنس سے کہا:
“لیکن اس بار کھیل میں جیت میری ہو گی، عاریز صاحب!”
یہ جملہ بجلی کی مانند دل کے کونے کونے کو جھلسا گیا۔
یہ وہ آمیزہ نہیں تھی جو کبھی اس کی محبت میں بکھر جایا کرتی تھی،
یہ وہ عورت تھی جو اب اپنی شکستوں کو ہتھیار بنا چکی تھی۔
عاریز کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ابھرا۔
وہ دکھ جو وہ کبھی لفظوں میں بیان نہ کر پایا،
وہ وضاحت جو وہ کبھی دے نہ سکا۔
دفتر کی خاموش فضاء میں اچانک ماضی کی راکھ میں دبی چنگاریاں دہکنے لگیں۔
نظروں کی وہ ٹھنڈی آنچ،
لفظوں کی وہ گرم خنجر،
اور دل میں ایک کرب—
سب دوبارہ زندہ ہو چکے تھے۔
کمرے کے کونے میں لگا کلاک ٹک ٹک کرتا رہا، لیکن عاریز اور آمیزہ… وقت کی گرفت سے آزاد ہو چکے تھے۔
ایک لمحہ تھا، مگر صدیوں پر محیط۔
ایک نظر تھی، مگر کئی کہانیوں کی گواہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 4
صبح کے پہلے پہر کا وقت تھا۔ آسمان ابھی مکمل طور پر روشن نہیں ہوا تھا، مگر رات کا اندھیرا بھی سمٹنے لگا تھا۔ خاموشی کی چادر میں لپٹے ماحول میں جیسے سب کچھ تھم سا گیا تھا۔ فضا میں ہلکی ہلکی نمی تھی اور ہوا بے آواز درختوں کی شاخوں کو چھو کر گزرتی تھی۔
تبھی… کسی شاخ پر بیٹھا ایک پرندہ چہک اٹھا۔
وہ آواز معمولی تھی، لیکن یوں محسوس ہوا جیسے وقت رک گیا ہو، جیسے قدرت نے کسی نئے آغاز کا اعلان کر دیا ہو۔
انیزہ گہری نیند میں نہیں تھی، مگر جاگ بھی نہ رہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں، لیکن دل جاگ رہا تھا۔ وہ انجانی بے چینی کے ساتھ چادر میں لپٹی اپنے بستر پر لیٹی تھی۔ رات کے سارے خوف، ساری چیخیں، ساری دعائیں اس کے وجود میں جذب تھیں۔
اچانک دروازہ چرچراتے ہوئے کھلا۔ دھیمی روشنی کے ساتھ دائی جان کا سایہ کمرے میں داخل ہوا۔
انیزہ نے آنکھیں کھولیں۔ سامنے دائی جان کھڑی تھیں… لیکن آج ان کی آنکھوں میں معمول کی شفقت نہیں تھی، نہ ہی وہ نرمی جس سے وہ ہمیشہ انیزہ کے وجود کو تھامتی تھیں۔
آج… ان کی آنکھوں میں فیصلہ نہیں تھا، ایک انقلاب تھا۔
ایک عزم… ایک چمک… ایک چنگاری۔
دائی جان نے آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے، پُرسکون مگر مضبوط لہجے میں کہا:
“تیاری کرو بیٹا… ہم جا رہے ہیں۔”
کمرے کی خاموش فضا جیسے کانپ اٹھی ہو۔ انیزہ نے سنا… لیکن سمجھ نہ پائی۔
کیا واقعی یہ الفاظ دائی جان کے تھے؟
کیا واقعی وہ… جا رہے تھے؟
انیزہ کی لرزتی آواز، محض ایک سرگوشی بن کر ابھری:
“کہاں…؟”
دائی جان اس کے قریب آئیں۔ ان کی نگاہوں میں ٹھہرا ہوا صبر بول رہا تھا۔ وہ جھکیں، انیزہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھاما۔
ان کے لبوں سے نکلنے والے اگلے الفاظ ہوا میں لرز گئے، جیسے قدرت بھی ان پر دم سادھے سن رہی ہو:
“وہاں… جہاں تمہیں اپنے وجود کا مان ملے گا۔”
ایک سناٹا سا چھا گیا۔
انیزہ کے دل میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔
مان؟
وجود؟
وہ سب کچھ جو برسوں سے اس کے اندر دفن تھا… کیا آج وہ دروازہ کھلنے جا رہا تھا؟
اس نے کوئی سوال نہیں کیا۔
کوئی احتجاج نہیں۔
بس دائی جان کی آنکھوں میں جھانکا… گہرائی تک… بہت دور تک…
اور وہاں اسے ماں کی ممتا کی وہ چمک ملی، جو کبھی قسمت نے اس سے چھین لی تھی۔
باپ کی وہ پناہ، جسے اس نے صرف خوابوں میں محسوس کیا تھا۔
اور سب سے بڑھ کر… رب کا وہ وعدہ، جو اندھیروں میں بھی روشنیاں عطا کرتا ہے۔
دائی جان نے اس کے ماتھے پر لب رکھے اور کہا:
“اب اندھیرا پیچھے رہ جائے گا، انیزہ… ہمیں روشنی کی طرف بڑھنا ہے۔”
کمرے کا ماحول بدلنے لگا۔ کھڑکی سے آنے والی روشنی اب اندر تک پھیل رہی تھی۔
انیزہ نے چادر ایک طرف کی، آہستہ سے بستر چھوڑا، اور دائی جان کا ہاتھ تھام لیا۔
آج وہ خاموش تھی، لیکن اس کی خاموشی میں ایک حوصلہ بول رہا تھا۔
ایک نیا آغاز…
ایک نیا سفر…
ایک نیا “جہاں” اُس کا منتظر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات سے لاہور کا سفر صرف جغرافیائی نہیں تھا…
یہ فاصلہ میلوں کا نہیں، صدیوں کا تھا۔
یہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی جانب نقلِ مکانی نہیں، بلکہ ایک قید خانے سے رہائی کا، ایک اندھیرے کمرے سے روشنی کے دریچے تک کا سفرِ نجات تھا۔
ایسا سفر، جہاں ہر موڑ، ہر منظر، ہر لمحہ ماضی کے زخموں کو پیچھے چھوڑنے کا اشارہ تھا۔
جب گاڑی کے دروازے بند ہوئے اور انجن کی مدھم آواز فضا میں گونجی، تو انیزہ نے آخری بار اپنے پیچھے نظر دوڑائی۔
اس نظر میں نہ کوئی شکوہ تھا، نہ التجا…
بس ایک ٹوٹا ہوا یقین تھا جو اب مکمل ہونے جا رہا تھا۔
گاڑی چل پڑی۔ آہستہ آہستہ گھر، گلیاں، در و دیوار نظروں سے اوجھل ہونے لگے۔
اور انیزہ…
اس نے خاموشی سے اپنا رخ کھڑکی کی طرف موڑ لیا۔
شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے اس کی نظریں مناظر پر نہیں، ماضی پر تھیں۔
درخت…
جو کبھی اس کے کمرے کی کھڑکی سے دکھائی دیتے تھے، آج اسے گواہ لگے…
اس کی تنہائی، اس کے آنسو، اس کے سہمے ہوئے خوابوں کے گواہ۔
کھیت…
جو ہریالی کی علامت تھے، آج جیسے اس کے دل کی سوکھی زمین پر ایک الوداعی نظر ڈال رہے تھے۔
اور وہ دور جاتی سڑک…
جیسے زندگی خود اس سے کہہ رہی ہو:
“چلو… اب وقت ہے آگے بڑھنے کا۔”
گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
نہ انیزہ نے کچھ کہا، نہ دائی جان نے۔
لیکن وہ خاموشی خالی نہ تھی…
دائی جان کی خاموشی میں ایک نظم تھی…
ایسی نظم، جو برسوں سے دل کے اندر کہی جا رہی تھی، بغیر لفظوں کے، صرف احساسات میں۔
ایک دعا تھی…
جو ہر سانس کے ساتھ ان کے ہونٹوں پر تھی، مگر زبان سے ادا نہیں ہوئی۔
وہ دعا جو انیزہ کے محفوظ مستقبل کی محافظ تھی۔
اور ایک وعدہ تھا…
جو وہ انیزہ سے کر چکی تھیں، بغیر کہے۔
وعدہ کہ اب وہ اسے اندھیروں میں واپس نہیں جانے دیں گی۔
وعدہ کہ وہ اس کی ماں بھی بنیں گی، اس کا باپ بھی، اور اس کا “جہاں” بھی۔
گاڑی رفتار پکڑ چکی تھی، لیکن انیزہ کا دل جیسے دھیرے دھیرے کھلنے لگا تھا۔
وہ منظر جو اسے کل تک قید لگتے تھے، آج پیچھے رہتے ہوئے “آزادی” بن گئے تھے۔
اس نے چپکے سے دائی جان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
نہ کوئی لفظ، نہ کوئی سوال…
بس ایک نظر، ایک لمس، اور ایک شکر گزار دل۔
دائی جان نے اس کے ہاتھ کو تھاما، ہلکا سا دبایا، اور مسکرا دیں۔
یہ مسکراہٹ ایک پیغام تھی:
“اب جو ہوگا، وہ سب تمہارے حق میں ہوگا، بیٹا…!”
اور یوں، لاہور کی طرف بڑھتی گاڑی کے اندر ایک نئی کہانی جنم لے رہی تھی…
ایسی کہانی، جس میں درد بھی تھا، دعا بھی، اور آخر میں… شاید محبت بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور کی ایک پوش اور پرسکون سڑک پر شام کی روشنی سنہری دھنک بکھیر رہی تھی۔
درختوں کی قطاریں، شفاف سڑک، اور پرتعیش گھروں کی طرزِ تعمیر شہر کی خاموش شان و شوکت کی گواہی دے رہے تھے۔
اسی خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک سیاہ گاڑی آہستگی سے ایک پرشکوہ، سنگِ مرمر سے بنے گیٹ کے سامنے رکی۔
گاڑی کی کھڑکی کے پاس بیٹھی درخشاں بیگم نے جیسے آنے والے لمحے کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ برسوں پہلے سنبھالا ہوا ایک پرانا احساس دوبارہ چھو لیا۔
ان کی آنکھوں میں نمی نہ تھی، لیکن گہرائی ایسی تھی جیسے اندر کہیں ایک لہر چپ چاپ اٹھ رہی ہو۔
گیٹ کھلا۔
گاڑی کا دروازہ دائی جان نے خود کھولا۔
پہلے وہ اتریں، پھر پیچھے سے انیزہ…
وہ دھیمی چال، جھکی نظریں، اور دوپٹے سے ڈھکا معصوم چہرہ… جیسے وقت نے خود کو تھام لیا ہو۔
بنگلے کا آہنی دروازہ ان دونوں کے لیے کھولا گیا، اور وہ اندر داخل ہو گئیں۔
سامنے سیڑھیوں پر درخشاں بیگم کھڑی تھیں۔
وہ عورت، جو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھی۔
جس کا ایک ایک فیصلہ خاندانوں کی تقدیروں کا رخ بدل دیتا تھا۔
آج وہ خود، ان قدموں کی منتظر تھیں۔
دائی جان نے چند قدم آگے بڑھ کر کہا:
“یہ ہے انیزہ… میری بھابھی کی بیٹی۔ آج سے میری ذمہ داری، اور… میرے دل کا بوجھ۔”
ان کے لہجے میں کوئی التجا نہیں تھی…
نہ رحم کی خواہش، نہ مہربانی کی امید…
صرف صدیوں کی سچائی تھی۔
ایسی سچائی جو وقت کے سینے پر لکھی جاتی ہے… پتھروں پر کندہ کی جاتی ہے۔
درخشاں بیگم نے انیزہ کو غور سے دیکھا۔
اس کی عمر شاید سترہ اٹھارہ برس ہوگی، مگر چہرے پر صدیوں کی تھکن تھی۔
ایسی تھکن جو اندر سے ٹوٹنے کے بعد جنم لیتی ہے۔
وہ سادگی میں لپٹی ہوئی لڑکی، سفید دوپٹے کے سائے میں، دونوں ہاتھ دائیں کلائی پر رکھے…
جیسے خود کو سمیٹے کھڑی ہو۔
جیسے وہ خود بھی نہیں جانتی کہ وہ کس سمت قدم رکھ رہی ہے۔
درخشاں بیگم کی نظریں لمحہ بھر کے لیے رُکیں…
پھر اُن کے چہرے پر ایک غیر مانوس سا نرم تاثر ابھرا۔
ایسی نرمی جو اکثر سخت مزاج دلوں میں بہت نایاب ہوتی ہے۔
“یہ گھر اب تمہارا ہے۔”
ان کے لبوں سے نکلا یہ جملہ ہوا میں کچھ دیر معلق رہا…
پھر جیسے انیزہ کے دل میں اتر گیا۔
ایک گھر…؟
کیا واقعی کوئی جگہ ایسی ہو سکتی ہے جہاں وہ صرف سانس نہیں، زندگی لے سکے؟
جہاں وہ صرف موجود نہ ہو… قبول بھی کی جائے؟
انیزہ نے نظریں اٹھا کر درخشاں بیگم کی طرف دیکھا۔
چند لمحے کے لیے آنکھیں ملیں۔
اس نظر میں نہ کوئی سوال تھا، نہ جواب…
بس ایک خالی پن تھا، جسے پُر ہونے کے لیے وقت کی ضرورت تھی۔
دائی جان نے آہستہ سے انیزہ کی پشت پر ہاتھ رکھا:
“چلو بیٹا… نئے دروازے تمہیں بلا رہے ہیں۔”
اور انیزہ نے پہلا قدم آگے بڑھایا۔
اندر جانے سے پہلے اس نے پلٹ کر آسمان کی طرف دیکھا۔
کوئی دعا، کوئی شکوہ، یا شاید شکرگزاری…
بس ایک خاموش اقرار کہ وہ ہار نہیں مانے گی۔
اور یوں…
ایک نئی کہانی، ایک نئی صبح، اور ایک نیا “جہاں” اس کے منتظر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کے جدید ترین اور بلند و بالا شیشوں سے مزین کارپوریٹ آفس کی دسویں منزل پر ایک غیر معمولی ہلچل تھی۔
باہر، ارد گرد کے لوگ کمپیوٹرز میں جھکے کام میں مصروف تھے،
مگر جیسے ہی لائٹ گری،
ایک ہیولہ عمارت کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔
عاریز۔
پورے اعتماد، دلکشی، اور اپنی خاص بے نیازی کے ساتھ۔
اس کا سوٹ بے داغ، ٹائی کا گرہ مکمل، اور چہرے پر وہی ہلکی مسکراہٹ جو ہر بار غیر متوقع جھٹکا دینے سے پہلے ابھرتی تھی۔
ریسپشن پر کھڑی لڑکی نے نظریں نیچی رکھتے ہوئے کہا:
“سر، آمیزہ میٹنگ روم میں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔”
عاریز نے کوئی جواب نہیں دیا، بس ہلکے سے سر ہلایا اور لمبے قدموں سے اس دروازے کی طرف بڑھا جہاں ایک بالکل مختلف معرکہ اس کا منتظر تھا۔
دروازہ کھلا…
اندر روشنی مدھم تھی، مگر ماحول میں تناؤ گہرا۔
شیشوں کی دیواروں سے باہر شہر کی دوپہر نظر آ رہی تھی،
مگر کمرے کے اندر…
ایک سرد سی ہوائیں چل رہی تھیں — جذبات کی نہیں، لبوں کی۔
سامنے کھڑی تھی آمیزہ۔
سرمئی شیفون کا سلیقے سے سلا ہوا لباس، بالوں کا ڈھیلا جوڑا،
چہرے پر وہی وقار، وہی تمکنت…
جیسے لفظوں سے نہیں، نگاہوں سے بات کرتی ہو۔
میز پر بکھری ہوئی فائلوں کو ترتیب دیتے ہوئے، آمیزہ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کہا:
“شروع کریں؟”
آواز میں بے نیازی نہیں، سرد مہری تھی۔
عاریز نے چند لمحے اسے خاموشی سے دیکھا۔
پھر قدم بڑھاتے ہوئے کہا:
“تمہاری موجودگی میرے لیے غیر ضروری سی محسوس ہوتی ہے…”
اور ساتھ ہی ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری۔
آمیزہ نے ایک لمحہ توقف کیا، جیسے اندر کچھ چبھا ہو،
مگر فوراً خود کو سنبھالا…
اور نظریں اس کے چہرے پر گاڑتے ہوئے کہا:
“اور تمہاری نااہلی کو چھپانے کے لیے میری موجودگی ضروری بھی تو ہے۔”
یہ جملہ، جیسے لفظ نہیں…
چاقو تھے جو ہوا میں چلائے گئے تھے۔
کمرے کی فضا جیسے لمحہ بھر کے لیے جمی ہوئی۔
اگر خاموشی کا خون ہوتا،
تو فرش پر سرخ دھاریاں بہہ رہی ہوتیں۔
عاریز نے زخم کھایا، مگر اس کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔
وہ جانتا تھا… آمیزہ ہمیشہ وار کرتی ہے — سیدھے دل پر، مگر آنکھوں میں دیکھ کر۔
“بہت خوب، آمیزہ… تم اب بھی دلیلوں سے کھیلنا نہیں بھولیں۔”
اس نے مسکرا کر کہا، مگر آواز میں ہلکی لرزش تھی — شاید غصے کی… شاید کچھ اور کی۔
آمیزہ نے فائل بند کی،
اس کے قریب آئی، فاصلے پر رکی،
اور دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا:
“کھیل وہی کھیلتا ہے جو جیتنا جانتا ہو، عاریز…
اور میں ہارنے والوں کے لیے وقت ضائع نہیں کرتی۔”
پھر وہ پلٹی اور کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
شہر کی بلندی سے نیچے دیکھتے ہوئے جیسے کچھ یاد کر رہی ہو…
یا کچھ چھپا رہی ہو۔
عاریز نے کچھ کہنا چاہا،
مگر زبان جیسے بند ہو گئی۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔
اور تب…
اس لمحے، جب الفاظ ختم ہو چکے تھے،
اور صرف خاموشی باقی تھی—
اسی خاموشی میں وہ چنگاری تھی…
جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے دکھائی دیتی تھی۔
ایسی چنگاری…
جس نے برسوں پہلے کچھ جلایا تھا،
اور شاید آج بھی راکھ کے نیچے کچھ دھڑک رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درخشاں بیگم نے آہستہ سے انیزہ کا ہاتھ تھاما۔
اس کا ہاتھ جیسے برسوں کے کانٹوں سے چھلنی تھا… سرد، سہما ہوا، اور لرزتا ہوا۔ درخشاں بیگم نے نرمی سے اس کو اپنے ساتھ چلایا۔ حویلی کی بھاگتی دوڑتی دنیا سے ذرا الگ، ایک روشن اور سادہ سا کمرہ… جس کی کھڑکیوں سے نرم دھوپ آتی تھی، اور جس کی دیواروں پر سکون بکھرا ہوا تھا۔
“یہ تمہاری نئی دنیا ہے…”
درخشاں بیگم کی آواز میں وہ ٹھہراؤ تھا جو صرف ان ماں جیسی ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے دل درد سے گزر کر رحمت بن چکے ہوں۔
“پرانے زخم یہی چھوڑ دینا، انیزہ۔ اب جو آنکھیں نم ہوں، وہ دعا کے لیے ہوں۔ جو لب لرزیں، وہ رب کے لیے ہوں۔”
انیزہ کی آنکھوں میں حیرت اور نمی اکٹھے اتر آئے۔
کمرہ چھوٹا ضرور تھا، مگر اس میں کشادگی تھی… جیسے روح کے لیے کوئی کھلا آسمان۔
نرم سفید پردے، سلیقے سے رکھی جائے نماز، کتبِ دعا کی چھوٹی سی الماری، اور ایک کونے میں پانی کا جگ رکھا تھا۔ یہ سب چیزیں گویا انیزہ کے دل پر مرہم بن کر اتر رہی تھیں۔
اس نے لرزتے قدموں سے جائے نماز بچھائی۔
وہ پہلا سجدہ تھا… برسوں کے بعد… برسوں کے دکھوں کے بعد۔
نماز کے ہر لفظ پر وہ ٹوٹتی، سنبھلتی، گرتی، اور پھر اٹھتی رہی۔
اور جب اس کا ماتھا سجدے میں جھکا، تو دل سے جو صدا نکلی وہ سیدھی عرش تک گئی۔
“یا رب، یہ کیسا سجدہ ہے… جس میں میں خود کو پا گئی ہوں؟”
آنکھوں سے بہنے والے آنسو خاموش تھے، پر ان کی گواہی گونج دار تھی۔
یہ آنسو شکست خوردگی کے نہیں تھے…
یہ وہ آنسو تھے جو دل کے زخموں کی جگہ رب کا نور بن کر ٹپک رہے تھے۔
درخشاں بیگم دروازے کے پاس کھڑی تھیں۔
آنکھوں میں سکون اور لبوں پر خاموش دعا تھی۔
انہوں نے آہستہ سے رخ موڑا، اور کمرے سے باہر آ گئیں…
کیونکہ وہ جانتی تھیں… اب انیزہ اکیلی نہیں رہی۔
۔۔۔۔۔۔
گجرات کی شام عجیب سی گھمبیر تھی۔
بادلوں کی گرج میں جیسے کوئی اندونی طوفان چھپا ہو، اور فضا میں ایک غیر مرئی بوجھ پھیلتا جا رہا تھا۔
دائی جان ابھی عصر کی نماز سے فارغ ہوئی تھیں کہ فون کی گھنٹی چیختی ہوئی بجی
جیسے کوئی خبر نہیں، قیامت آئی ہو۔
فون کی اسکرین پر “نگینہ بیگم” کا نام جھلملا رہا تھا۔
دائی جان کا دل بے وجہ سمٹ سا گیا۔
انہوں نے آہستگی سے فون اٹھایا، مگر اگلے ہی لمحے آواز کا طوفان کانوں سے ٹکرایا:
“یہ کیا کیا آپ نے؟ وہ لڑکی ہماری ذمہ داری تھی!”
نگینہ بیگم کی آواز میں وہ تیزاب تھا، جو صرف تب نکلتا ہے جب جھوٹ اپنی صفائی میں لپیٹ کر بولا جائے۔
دائی جان کا چہرہ لمحہ بھر کو سپاٹ ہوا، پھر ان کے ہونٹ ہلے —
نرمی نہیں، فولاد کا سا لہجہ تھا۔
“ذمہ داری؟ یا غلام؟ جسے تمہارے بیٹے کے ہاتھوں ذلیل ہونا تھا؟”
ہر لفظ وزن رکھتا تھا، جیسے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہو، جیسے برسوں کی خاموشی بول پڑی ہو۔
دوسری طرف لمحے بھر کی خاموشی چھا گئی۔
پھر نگینہ بیگم کی آواز دوبارہ بلند ہوئی، مگر اب اس میں دفاع کا کرب تھا:
“شایان نے کچھ نہیں کیا!”
دائی جان کا سانس ایک پل کو رکا، پھر انہوں نے جیسے اندر کی چنگاری کو زبان دی:
“تو کیا میں نے جھوٹ دیکھا؟
کیا وہ لڑکی روز بے سبب سہم جاتی تھی؟ کیا اس کی آنکھوں کا خوف محض وہم تھا؟ کیا شایان کے لہجے میں زہر نہیں تھا؟
خدا کا خوف کرو، نگینہ بیگم! ہر بیٹا فرشتہ نہیں ہوتا!”
الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح فون کے ذریعے نگینہ بیگم کے وجود میں اتر گئے۔
خاموشی چھا گئی — گہری، خالی اور ٹوٹتی ہوئی۔
اچانک فون بند ہو گیا۔
کوئی الواداعی لفظ نہیں، کوئی صفائی نہیں، بس ایک سرد، بےرحم خاموشی۔
دائی جان نے فون میز پر رکھ دیا، لیکن ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
آج نہ صرف ایک رابطہ ٹوٹا تھا، بلکہ ایک رشتہ… شاید ہمیشہ کے لیے کھو گیا تھا۔
دلوں میں جو دراڑیں تھیں، وہ اب خلیج بن چکی تھیں۔
ایسی خلیج جس کے پار نہ لفظ جا سکتے تھے، نہ دعا۔
کمرے میں سناٹا تھا۔
مگر اس سناٹے میں ایک چیخ چھپی تھی…
انیزہ کی، دائی جان کی… اور شاید خود نگینہ بیگم کی بھی
جو سچ سے نظریں چراتی رہی، جب تک کہ سچ ان کے منہ پر طمانچے کی طرح نہ آ گرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے سناٹے میں حویلی جیسے سانس روک کر سو رہی تھی۔
ستاروں کی ہلکی روشنی کھڑکی سے چھن چھن کر اندر آ رہی تھی۔
کمرے کے ایک کونے میں انیزہ جائے نماز تہہ کیے بیٹھی تھی، جیسے دل کی الجھنوں کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہو۔ آنکھوں میں تھکن تھی، مگر اندر کوئی امید آہستہ آہستہ سانس لے رہی تھی۔
اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
دروازہ آہستگی سے کھلا، اور درخشاں بیگم اندر داخل ہوئیں۔
ان کے ہاتھ میں ایک نفیس سفید چادر تھی — جیسے خالص محبت کا لباس۔
انہوں نے انیزہ کے قریب آ کر نرمی سے چادر تھامی، اور گود میں رکھ دی۔
“یہ تمہارے لیے ہے۔”
ان کی آواز میں ایسا سکون تھا جیسے ماں کی آغوش ہو، یا شاید صدیوں پرانی کسی دعا کی بازگشت۔
انیزہ چونکی، نظریں اٹھائیں —
درخشاں بیگم کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی، مگر ان کا چہرہ پرسکون تھا۔
انہوں نے آہستہ سے کہا:
“تمہیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے میری جوانی کی تنہائی میرے سامنے کھڑی ہو…”
آواز بھرا گئی۔ لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی —
پھر انہوں نے ہاتھ انیزہ کے سر پر رکھ دیا۔
“مگر تم اکیلی نہیں ہو، بیٹا۔ اب نہیں۔”
یہ جملہ سن کر انیزہ کی آنکھوں میں جیسے بند بادل ٹوٹ گئے۔
دل کی وہ پرتیں، جو برسوں سے کسی لمس کو ترس رہی تھیں، آج نم ہو گئیں۔
وہ آہستگی سے درخشاں بیگم کے ہاتھوں کی طرف جھکی، اور انہیں چوم لیا —
نرمی سے، شکر گزاری سے… ٹوٹے وجود کے ساتھ… بند دل کے دروازے کھولتے ہوئے۔
جیسے برسوں کے اندھیرے کو اچانک روشنی چھو گئی ہو۔
کمرے کی فضا بدل گئی تھی۔
دیواروں پر جیسے روشنی لرزنے لگی ہو، اور ہوا میں دعا کی مہک آ گئی ہو۔
چادر اب انیزہ کے کندھوں پر تھی —
نرم، محفوظ، اور مان سے لپٹی ہوئی۔
درخشاں بیگم نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، اور آہستہ سے کہا:
“بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں، روشنی ہوتی ہیں… بس وقت لگتا ہے سب کو یہ سمجھنے میں۔”
پھر وہ خاموشی سے واپس پلٹ گئیں ۔
مگر انیزہ کے دل میں وہ الفاظ، وہ لمس، اور وہ چادر…
زندگی بھر کے لیے ٹھہر گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی روشنی نے حویلی کو نرمی سے جگایا تھا۔
دھوپ کا سنہرا لمس لاؤنج کی کھڑکیوں سے اندر داخل ہو رہا تھا، جہاں ہر چیز کو ایک دھندلے سے حسن میں لپیٹا ہوا تھا۔
انیزہ چپ چاپ کچن سے چائے کا کپ اٹھائے لاؤنج کی طرف آئی۔
کپکپاتے ہاتھ، آہستہ قدم، جیسے حویلی کے ہر کونہ اس کے لیے نیا ہو… اور ہر سانس میں احتیاط ہو۔
چائے کی خوشبو ہوا میں تحلیل ہو رہی تھی کہ اچانک —
سامنے سے آتے قدموں کی چاپ نے اسے چونکا دیا۔
عاریز۔
سفید شلوار قمیض، ہاتھ میں فائل، اور ماتھے پر معمول کی سنجیدگی۔
وہ جانے کب سے لاؤنج کی سیڑھیاں اتر رہا تھا، مگر جب انیزہ اس کے سامنے آئی، تو اس کے قدم جیسے رک گئے۔
چند لمحے… جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔
نگاہیں ٹکرائیں۔
دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا —
نہ مکمل طور پر، نہ پوری طرح بچتے ہوئے۔
عاریز کی آنکھوں میں ایک جھجک، ایک انجانی سی حیرانی تیر گئی۔
لبوں پر بےساختہ سوال اتر آیا:
“یہ کون ہے؟”
الفاظ زبان پر نہیں آئے، مگر آنکھوں نے پوچھ لیا۔
اس سے پہلے کہ فضا میں کوئی الجھن جمتی،
درخشاں بیگم کی پر اعتماد، پرشفقت آواز نے سکوت توڑا:
“میری مہمان… اور اب ہمارے خاندان کا حصہ۔”
ان کا لہجہ نرمی سے بھرپور، مگر اتھارٹی کے ساتھ تھا۔
انہوں نے انیزہ کی طرف ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا، اور عاریز کی طرف محبت سے سر ہلایا —
جیسے دونوں کو کسی نادیدہ رشتے میں باندھ رہی ہوں۔
عاریز نے آہستہ سے سر ہلایا۔
چہرے پر کوئی خاص تاثر نہ تھا، مگر آنکھوں میں ایک ہلچل ضرور تھی۔
جیسے کسی بند دروازے کے پیچھے ہوا نے دستک دی ہو۔
وہ چپ چاپ فائل سنبھالتا آگے بڑھ گیا —
مگر دل کے کسی کونے میں،
کچھ ہلا تھا۔
کوئی پرانا نغمہ، کوئی بھولی بسری سرگوشی،
جسے ہوا نے کانوں میں آہستہ سے سنا دیا ہو۔
انیزہ نے نظریں جھکا لیں، مگر دل کے اندر ایک انجان سا نام گونجنے لگا تھا…
عاریز۔
اور شاید عاریز کے دل میں بھی…
ایک سوال، ایک سایہ، ایک خاموشی…
جس کا جواب ابھی وقت نے دینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کی گہری خامشی میں حویلی نیند میں ڈوبی ہوئی تھی،
مگر ایک کمرہ ایسا تھا جہاں نیند نہیں، جاگتی سوچیں تھیں۔
اونچی کھڑکی کے پاس، چاندنی کے اجالے میں، انیزہ دبک کر بیٹھی تھی۔
ہاتھ میں چمڑے کی جلد والی پرانی ڈائری، اور سامنے کھلا صفحہ…
سفید، خالی، مگر اس کے دل کی گواہی لینے کو بےتاب۔
پین کی سیاہی جیسے اس کے دل کا بوجھ بن چکی تھی۔
آہستہ سے اس نے لکھنا شروع کیا:
“آج پہلی بار دل نے سانس لیا…”
کچھ لمحے ٹھہرے…
پھر ہاتھ لرزے…
اور اگلی سطر خودبخود صفحے پر اُتر گئی:
“مگر ایک نظر… بس ایک نظر نے دل کی دیواریں پھر ہلا دیں۔”
لکھ کر وہ کچھ لمحے ساکت رہی۔
آنکھوں کے سامنے وہ لمحہ لوٹ آیا —
صبح، لاؤنج، وہ نظریں، وہ خاموش حیرت۔
دل میں ایک بے نام سی ہلچل تھی، جیسے کوئی کائناتی سگنل۔
اسی لمحے، نیچے لان میں ہلکی ہلکی آہٹ سنائی دی۔
انوکھے سکون اور بےچینی کے درمیان ایک آہٹ —
جیسے کوئی بےقرار روح خاموشی سے زمین ماپ رہی ہو۔
انیزہ نے بےاختیار کھڑکی سے جھانکا۔
نیچے، لان میں، سفید قمیض میں ملبوس عاریز آہستہ آہستہ چہل قدمی کر رہا تھا۔
سر جھکائے، سوچوں میں گم، ہر قدم جیسے کسی خیال کے زیر اثر۔
چاندنی اس کے گرد ایک خاموش چادر کی طرح لپٹی تھی۔
اچانک وہ رکا۔
جیسے دل نے دھڑکنا بھول گیا ہو۔
سر اٹھایا…
اور کھڑکی کی طرف دیکھا —
ٹھیک اُس سمت جہاں انیزہ کھڑی تھی۔
نگاہوں نے نہ سوال کیا، نہ جواب مانگا۔
بس لمحہ ٹھہرا رہا… لمحہ جو لفظوں سے آزاد تھا۔
دونوں چہرے چاندنی میں نہا گئے۔
دوریاں تھیں، دیواریں تھیں، مگر…
کچھ تو تھا جو اُن کے بیچ ہوا میں لرز رہا تھا۔
چاندنی جیسے خاموشی سے کوئی پیمان لکھ رہی ہو…
کسی ان کہی بات کا گواہ بن رہی ہو۔
انیزہ کی انگلیاں ڈائری کے صفحے پر رک گئیں،
جیسے اگلی سطر اب چاندنی لکھے گی…
یا عاریز کی نگاہ۔
عاریز نے ایک پل کو نظریں جمائیں،
پھر آہستہ سے پلٹ گیا…
مگر جاتے جاتے کچھ دل میں چھوڑ گیا —
کسی سوال کی پرچھائیں،
کسی لمحے کی دھڑکن۔
انیزہ نے نظریں جھکا کر ڈائری بند کی۔
صفحه پر آخری سطر خاموشی سے چمک رہی تھی…
“جیسے وقت نے خاموشی سے کوئی وعدہ لکھ دیا ہو۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button