Novelletteرومینٹک ناول
Trending

Ishaq M Jhulli by Hina Shahid

#romanticnovels #famousurdunovels #peer-e-kamil #UmairaAhmad

Story Highlights
  • س نے آنکھوں میں موتی سجا کر اپنے دودھیہ سفید ہاتھوں کی جانب حقارت سے دیکھا اور نفرت سے بولی۔ اس کا دل چاہا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی یہ دلنشین ہاتھ جلا ڈالے۔ لیکن وہ ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ اس کی سانسوں پہ اس کے وجود پہ کسی کی حکومت تھی اور وہ اس بادشاہ کی غلام تھی۔ ایک زرخرید غلام ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! جو خود سے شاید سانس بھی نہیں لے سکتا۔ "ایسے تو مت بولیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!! اللہ کا شکر ادا کریں اس نے آپ کو اتنی دلکشی سے نوازا ہے۔" روشنی نے حیرت سے اسے سمجھایا۔ "اگر ہمارے ان ہاتھوں پہ ہادی سلیمان کی نظر نہ پڑی ہوتی تو آج ہمارے ہاتھ اس کے نام کی چوڑیوں کی زنجیر کے ساتھ بھی جکڑے نہ ہوتے۔" خوبصورت پلکوں کی جھالر نم دیدہ ہوگئی۔ بڑی بڑی آنکھوں  میں چھلکتے سفید موتی روشنی کی نظروں سے چھپ نہ سکے۔

عشق میں جھلی    از    حناء شاہد

قسط نمبر 1

” اڑان بھرنے کی کوشش میں ایک لمحے کے لیے ادھر بھی دیکھیے اور تھوڑا تحمل سے سوچیے اس محل کے تمام راستے گھوم پھر کے دوبارہ اسی دالان کی طرف آتے ہیں اور اس دالان کا داخلی و خارجی راستہ بس اسی ایک کمرے کی جانب کھلتا اور بند ہوتا ہے جس کمرے کی آپ رانی ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔!!! ہائے یہ ماری قسمت جس در کی جانب آپ لمحے بھر کو نہیں دیکھتی ہیں اسی در کے پار آپ کی دنیا بسائی گئی ہے۔ “

روشنی نے ایک سرد آہ بھری اور نم دیدہ پلکوں کی جھالر اٹھا کردلآویز کی جانب دیکھا جو اداس آنکھیں فرش پہ ٹکائے نامعلوم کن سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔

” درد کا یہ عالم کبھی تو ختم ہو گا ۔ کبھی نا کبھی ہم اس پنجرے کی قید سے آزاد ہوں گے اور کھلی فضاؤں میں سانس لیں گے۔ “

ایک سرد آہ زبان کے دریچوں کو چھوتی باہر آئی۔ روشنی نے دل آویز کی آنکھوں میں چھپے درد کی سنگینیوں کو قریب سے محسوس کیا ۔ اس کا دل پسیج سا گیا۔ لیکن افسوس کہ دلآویز کی حسرتوں پہ سوائے آہ و فغاں اور نالوں کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔

“آنکھوں میں کبھی وہ خواب نہیں سجانے چاہئیے جن کی تکمیل کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔”

اس نے حسرت سے کڑھتے لہجے میں کہا۔ روشنی تھوڑا سا سرکی اور اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ سفید دودھیہ ہاتھوں پہ سرخی چھوڑتی مہندی بہت دلکش لگ رہی تھی ۔ اس کے ہاتھوں کی دلکشی کو مزید سرخ نارنجی چوڑیوں نے دلفریب بنا دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے نئی نویلی دلہن کے ارمان مہندی اور چوڑیوں کی شکل میں خصوصی انداز اپنائے اک مسرت اور خوشی کی صورت میں سب کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔

“آپ کے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں۔ “

روشنی نے حسرت بھری نگاہوں سے اس کے ہاتھوں کی دلکشی پہ نظرِ التفات ڈالی اور مانوسیت سے بولی۔

“کاش! ہمارے ہاتھ خوبصورت نہ ہوتےَ”

اس نے آنکھوں میں موتی سجا کر اپنے دودھیہ سفید ہاتھوں کی جانب حقارت سے دیکھا اور نفرت سے بولی۔ اس کا دل چاہا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی یہ دلنشین ہاتھ جلا ڈالے۔ لیکن وہ ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ اس کی سانسوں پہ اس کے وجود پہ کسی کی حکومت تھی اور وہ اس بادشاہ کی غلام تھی۔ ایک زرخرید غلام ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! جو خود سے شاید سانس بھی نہیں لے سکتا۔

“ایسے تو مت بولیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!! اللہ کا شکر ادا کریں اس نے آپ کو اتنی دلکشی سے نوازا ہے۔”

روشنی نے حیرت سے اسے سمجھایا۔

“اگر ہمارے ان ہاتھوں پہ ہادی سلیمان کی نظر نہ پڑی ہوتی تو آج ہمارے ہاتھ اس کے نام کی چوڑیوں کی زنجیر کے ساتھ بھی جکڑے نہ ہوتے۔”

خوبصورت پلکوں کی جھالر نم دیدہ ہوگئی۔ بڑی بڑی آنکھوں  میں چھلکتے سفید موتی روشنی کی نظروں سے چھپ نہ سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“آپ کدھر جا رہے ہیں اس وقت۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

طیبہ بیگم جو سفید قمیغ شلوار پہنے اپنے سر کو اچھے سے دوپٹے کے ساتھ ڈھکے ہوئے ہاتھوں میں تسبیح لیے کوریڈور میں ٹہل رہی تھی۔ ہادی سلیمان کو یوں ٹریک سوٹ میں گاڑی کی چابی گھماتے پورچ کی جانب جاتے دیکھا تو سرعت سے بولیں۔

“بس ایسے ہی لانگ ڈرائیو پہ جانے کا دل ہو رہا تو سوچا باہر کی تازہ ہوا کھا آتا ہوں۔ “

اس نے لائٹ سے موڈ میں مسکرا کر کہا تو طیبہ بیگم کو اس کی مسکان پہ حیرت ہوئے۔

“بابا جانی کو جانتے ہیں اچھے سے آپ اس کے بعد بھی رات کے  اس پہر ایسے یوں جانا مناسب نہیں ہے۔ “

انہوں نے تنبیہاً اسے کچھ سمجھانا چاہا ۔ جبکہ وہ چابی کو گھماتا اسی سادہ مگر پرتاثر مسکان کے ساتھ ہولے سے ان کے قریب آیا اور شانوں پہ ہاتھ دھرے حلاوٹ سے بولا۔

“جانے دیجیے ناں۔۔۔۔۔۔! “

اس کا یوں لاڈ سے بات کرنا اکثر ہی طیبہ بیگم کا دل پگھلا دیتا تھا۔ تو وہ بھی بنا کسی عذر کے مسکرا دیں۔ اور محبت سے اس کے ہاتھوں کو تھاما لبوں سے لگایا اور دھیرے سے بولیے۔

“اچھا جائیں ۔۔۔۔۔! لیکن کوشش کیجیے گا جلدی آنے کی ۔ یہ نا ہو ہمیں آپ کے بابا جانی کی عدالت میں بنا کسی جرم کے مجرم کی طرح صفائیاں دینی پڑ جائیں۔ “

طیبہ بیگم کے انداز پہ وہ لبوں پہ گہری مسکان بھرتا ان کے ماتھے پہ اپنے لب دھر کے بوسہ دیتے ہوئے پیچھے ہٹا۔ گہری مسکان سے اس کے رخسار پہ پڑتے گہرے کھڈے بہت دلنشیں تھے۔ ہادی سلیمان کے وقار اور شخصیت کی دلفریبی اتنی حسین تھی کہ کوئی بھی اس کو دیکھ کے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ اوپر سے واللہ قیامت اس دفریب شخصیت کو چار چاند لگاتے دونوں گالوں کو پرکشش بناتے یہ ڈمپل نجانے کتنے دلوں کی دھڑکنوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

وہ ایسے ہی مسکان بھرتا کی رنگ کو گھماتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ طیبہ بیگم کی کل کائنات رحمان محل کے یہ چند گل و گلزار ہی  تھے۔ سلیمان صاحب کے جاہ و جلال اور محبت و شفقت کے سائے تلے پرورش پانے والے ہادی سلیمان بڑے بیٹے نعمان سلیمان ان سے چھوٹے اور عنایہ سلیمان ایک صاحبزادی کے روپ میں جہاں وہ ہر  طرح کی آزادی سے لبریز شان و شوکت کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے تھے وہیں پہ انہیں ان کی حدود کا بھی باخوبی علم تھا۔ رحمان محل کے اصول کسی پرانے زمانے کے رسم و رواج کی پروان چڑھے کسی پتھر سے کم نہ تھے۔ اور اس محل کے سب باسی انہی اصولوں کے پابند تھے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“یہ لباس پہن کے جتنا جلدی ہو سکے نیچے محفل میں آ جائیے۔ رونق باخوب ہے اور ہر نظر کو بس آپ کے دلکش و دلفریب روپ کو دیکھنے کی بے تابی ہے۔ “

آئینے میں جلوا افروز سراپا کسی اپسراء سے کم نہ تھا۔ لمبے گھنے سیاہ بالوں میں براؤن لٹیں اور گھنی زلفوں کی چمک کسی کے بھی دل کو اپنی گرفت میں کر سکتی تھیں۔ کاجل کی سیاہ دھار سے سجی سرمئی کانچ جیسی خوبصورت و دلکش نگاہیں قیامت ڈھانے کو تیار تھیں۔ گہری سیاہ پلکوں کی جھالر ان نشیلی آنکھوں کی خوبصورتی پہ چار چاند لگانے کے لیے پہرہ دیے بیٹھی تھیں۔ سفید دودھیہ رنگت پہ چاند بھی آ کے دیکھے تو شاید شرما جائے۔ اس نے نزاکت کے ساتھ گھنے بالوں کو شانے سے پشت پہ کیا اور سرخی مائل مہندی سجے ہاتھوں کے ساتھ اس قیمتی لباس کو چھوا۔ سفید شفون کے لمبے میکسی فراک پہ مہرون اور سبز نگینے سجے ہوئے تھے۔ دامن پہ بس ہلکی سی گوٹے کی لائن سجی تھی۔  مہرون نیٹ کے دوپٹے پہ ہلکا سا کام ہوا تھا جبکہ بارڈر پہ موتیوں کی لری لگی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر فراک پہ ڈالی اس کو ہاتھ سے چھوا اور تبسم چہرے پہ سجائے دھیرج سے بولی۔

“آپ جائیے سجیلہ خالہ ہم بس کچھ ہی لمحوں کے توقف سے آپ کی محفل کو لوٹ لیں گے۔ اور پھر آپ ساری رات نوٹوں کی گھٹریاں اٹھانے اور انہیں گننے میں گزار دیجئے گا۔ “

آنکھوں میں اک کرب سجائے وہ آنسوؤں پہ قابو رکھے کس ادائے بے نیازی سے بولی تھی یہ صرف وہ جانتی تھی۔ سجیلہ خالہ جو ایک بازارو عورت تھی ۔ کسی بھی درد سے انجان وہ اس اپسراء کی اذیت کو پسِ پشت ڈال کر اس کی کہی ہوئی بات پہ خوشی سے پھولے نہ سمائے جارہی تھی۔

“جیتی رہے ۔۔۔۔۔! خوش رہے۔۔۔۔۔۔۔! آباد رہے اور میرے اس کوٹھے کی رونق کو صدا آباد رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔! تیری سجیلہ خالہ کی دعا ہے۔ خدا تیرے حسن کو چار چاند لگائے اور تیرے حسن کے دیوانے یونہی اپنی زندگی بھر کی کمائی تیرے حسن پہ نچھاور کرتے رہیں۔”

نجانے کون کون سی دعائیں تھیں جو وہ اپسراء کو دیتے کمرے کی چوکھٹ سے باہر آئیں۔                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ہادی سلیمان نے حیرت و پریشانی سے پوچھا۔

“ہاں! لگ رہا ہے کہ ٹھیک ہی ہوں۔”

ناصر حیات نے قدرے غمگین و افسردہ لہجے میں کہا۔

“جہاں تک تیرے حلیے سے لگ رہا ہے میں محسوس کر سکتا ہوں تُو ٹھیک نہیں ہے۔ “

ہادی سلیمان نے طنز کیا۔ جس پہ ناصر حیات نے گردن گھماتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

“میں چاہتا ہوں ایک ہی لمحے میں میں اپنا درد بھول جاؤں۔”

ناصر حیات نے نظریں فورا سے جھکا لیں۔ ہادی سلیمان کو اس پہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی خوش باش ، کسی کی بھی پروا نہ کرنے والا ٹائم پاس لڑکا ہے۔ جس کے افئیرز کی تعداد کو اگر وہ گننا بھی شروع کرے تو شاید گنتی ختم ہو جائے ۔ لیکن اس کے افئیرز کبھی ختم ہی نہ ہوں۔

“اور یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔۔؟ ” ہادی سلیمان نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے طنزیہ پوچھا۔

“ایک جگہ ہے جہاں جا کر میں کیا ہر انسان اپنا درد بھول سکتا ہے۔”

ناصر حیات کی آنکھوں میں عجیب سی چمک امڈ آئی۔

“وہ کون سی جگہ ہے؟  ہادی سلیمان نے تعجب سے پوچھا۔

“تُو وعدہ کر مجھے ابھی لے کے جائے گا۔ مجھے پتا ہے میں نے تجھے اگر جگہ کا بتایا تو تُو نہیں لے کے جائے گا۔”

وہ ڈرتے ڈرتے گویا ہوا۔ جس پہ ہادی سلیمان جھٹ سے بولا۔

“اچھا ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں لے کے جاؤں گا۔ لیکن اپنی یہ شکل ٹھیک کر۔ تجھے دیکھ کر مجھے فیل ہو رہا ہے جیسے عرصہ دراز کی کہانیوں میں چھپے رومیو جولیٹ پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔ “

ہادی سلیمان کی بات سن کر دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ اور فضاؤں میں ان کے قہقہوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔

                               جاری ہے انشاء اللہ!!!۔

                                ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button