رومینٹک ناول
Trending

Khumarey Jaan by Hina Shahid Episode 21

ذرا سا جبر سے میں بھی تو ٹوٹ سکتی تھی میری طرح سے طبیعت کا وہ بھی سخت نہ تھا میرے لیے تو وہ خنجر بھی پھول بن کے اٹھا زبان سخت تھی، لہجہ کبھی کرخت نہ تھا خمارِ جاں از قلم حناء شاہد تھرڈ لاسٹ ایپیسوڈ

Story Highlights
  • "دیکھو سارہ میری جان! خود کو سنبھالو۔ پلیز ! میری جان!" ایک ہی لمحے میں ان کی جان نکل گئی۔ وہ تیزی سے کچن کی جانب بڑھی اور سرعت سے ڈور کو لاک کیا۔ وہ باہر دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑی زور زور سے دروازہ پیٹنے لگیں۔ "نہیں مام! اگر خضر میری زندگی میں نہیں ہے تو مجھے یہ زندگی بھی نہیں چاہئیے۔" وہ زور زور سے چیزیں ادھر ادھر پھینکنے لگی شاید کچھ تلاش کر رہی تھی۔ ملیحہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھیں۔ "سارہ! نہیں کچھ نہ کرنا پلیز۔۔۔۔۔! میری جان! ماما کی جان۔۔۔۔۔! خود کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ میرا تم سے وعدہ ہے خضر بیگ تمہارے ساتھ شادی ضرور کرے گا۔ وہ صرف تمہارا ہی ہے۔" وہ اب اپنے حواس بے قابو ہوتے ہوئے محسوس کر رہی تھیں۔ ان کا سارا وجود ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ ان کی کل کائنات تو صرف ان کی بیٹی ہی تھی۔ اور اب خضر کی محبت کا جنون اس کے سر پہ ایسا سوار تھا کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے والی تھی لیکن ملیحہ کی بے بسی کی انتہاء تو دیکھو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی بیٹی کو یہ انتہائی قدم اٹھانے سے روک نہ پائیں۔ "خضر! آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔!" ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ تیز چاقو تھامے وہ آنسوؤں میں بھیگتے رخساروں کے ساتھ اپنی کلائی زور سے کاٹ بیٹھی۔ خون کی تیز رفتار دھار چند ہی لمحوں میں اس کے سارے وجود کو بھگو گئی۔ اس نے نجانے کتنے ہی چاقو کے وار اپنی کلائی پہ کیے۔ ملیحہ باہر چیختی چلاتی رہپیں سارہ کے لبوں سے آخری وقت تک بس یہی الفاظ نکل رہے تھے۔ "خضر! آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔! خضر! آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

خمارِ جاں از قلم حناء شاہد قسط نمبر 21 

 

چھ مہینے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!۔

What use loving the one without heart!

My eyes pour out tears,

With an arrow stung in my bosom, he left,

Along with the soul, my body is bereft,

There is no trusting the heartless.

It matters to him not,

It is like sparrows getting shot,

For the fun of the floods,

They see, laugh, and clap in retort,

What use loving the one without heart!

He promised to come but is

To be seen now here.

To keep his word he seldom cares,

I was misled taking a fancy to him

What a cheat of a trader

I’ve to endure!

Bulleh shah struck a poor bargain

It was like supping a cup of pain

There was loss galore and hardly any gain

Suffering sheer agony on his part,

What use loving the one without a heart?

نجانے کب آنکھیں موندے وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ حلقوں کی موجودگی اس بات کی گواہ تھی کہ وہ اندر ہی اندر کسی گہرے غم میں مبتلا ہے۔ آنسوؤں کے موتی پلکوں کو بھگوئے اسے نیند کی وادیوں میں چھوڑ کر وہیں اپنا وجود ختم کرنے میں مگن تھے۔ کتابوں سے دوستی تو کبھی نہیں تھی لیکن زندگی نے کچھ ایسے موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا کہ اب اس کی زندگی میں سوائے ان کتابوں کے کچھ اور رہا ہی نہیں تھا۔ وہ سینے پہ ہاتھ باندھے اور اسی حصار میں صائمہ منصور کا دلفریب شعری مجموعہ “تیرے میرے خواب” مقید کیے اب سو چکا تھا۔

                                            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سورج میٹھی میٹھی کرنوں کے ساتھ آسمان پہ جلوہ افروز تھا۔ کہیں کہیں ہلکی ہلکی بدلیوں کے بھی ڈیرے تھے۔ لہلہاتے کھیت سرسبز درخت اور کھیتوں میں صبح صبح کام کرتی خواتین اپنی ہی دنیا میں مگن تھیں۔ کھیتوں کے اس پار کھلے میدان میں چٹائیوں پہ قطار در قطار بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ وہ سب کتابیں ہاتھ میں تھامے کچھ یاد کرنے میں مشغول تھے۔ سامنے بوسیدہ حال کرسی پہ سفید چادر شانوں کے گرد حائل کیےِ، سر پہ سیاہ دوپٹہ اوڑھے، سیاہ کاٹن کے سوٹ میں ملبوس ماتھے پہ ایک سیاہ لٹ رخساروں کو چھوتی ہوئی اس کی سادگی کی بے مثال عکاسی کر رہی تھی۔

اے فار ایپل۔۔۔۔۔۔۔۔!

بی فار بال۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

سب اونچی اونچی آواز میں بار بار دہرا رہے تھے۔ کہ چھٹی کی گھنٹی بجی تو سب کے سب اسے خدا حافظ بولتے ہوئے اپنے اپنے رستوں پہ چلے گئے۔ وہ بھی اٹھی شانوں پہ چادر کو صحیح سے رکھا اور اپنا بیگ کندھے پہ رکھے وہ دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے وسیع میدان کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے اب سڑک کی جانب آئی۔ دھول سے اٹی سڑک اور ہر آنے جانے والے کے قدموں کی تیزی کی وجہ سے دھول اڑاتی سوندھی سوندھی خوشبو کے ساتھ وہ گاؤں کی فضاء کا ایک ایک حسین منظر اپنی آنکھوں میں قید کرتی کچھ سوچھتے ہوئے قدم آگے بڑھا رہی تھی۔

جلا دیا شجرِ جاں کہ سبز بخت نہ تھا

کسی بھی رت میں ہرا ہو، یہ وہ درخت نہ تھا

وہ خواب دیکھا تھا شہزادیوں نے پچھلے پہر

کہ اس کے بعد مقدر میں تاج و تخت نہ تھا

ذرا سا جبر سے میں بھی تو ٹوٹ سکتی تھی

میری طرح سے طبیعت کا وہ بھی سخت نہ تھا

میرے لیے تو وہ خنجر بھی پھول بن کے اٹھا

زبان سخت تھی، لہجہ کبھی کرخت نہ تھا

اندھیری راتوں کے تنہاء مسافروں کے لیے

دیا جلاتا ہوا کوئی ساز و رخت نہ تھا

گئے وہ دن کہ مجھی تک تھا میرا دکھ محدود

خبر کے جیسا یہ افسانہ لخت لخت نہ تھا

وہ سوچوں کے سمندر میں غوطے کھاتی زندگی کی کئی اذیتوں کو فی الوقت محسوس کرتے قدم بڑھا رہی تھی کہ کسی نے بڑی سرعت کے ساتھ گاڑی کی بریک لگائی۔ اچانک بریک لگنے سے فضاء میں دھول ہی دھول ہو گئی۔ فرنٹ ڈور کو کسی نے بڑی تیزی کے ساتھ اوپن کیا۔ اس نے بھی رک کر گاڑی کی جانب دیکھا۔

“تم ایسے کیوں جا رہی ہو آؤں میں حویلی چھوڑ دیتا ہوں۔”

آسمانی کلر کے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس وجیہہ شخصیت کا پرکشش نقوش کا مالک انسان قدرے حلاوت سے اس سے کہہ رہا تھا۔

“نہیں ! ہم خود ہی چلے جائیں گے۔”

اس نے اس کی بات پہ سرزنش کرتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔

“اس میں کیا ہے میں بھی حویلی ہی جا رہا ہوں۔”

وہ مسکرا کر اس کی جانب آیا۔ ڈرائیور جو دوسری جانب رخ کیے کھڑا تھا اس کے اشارے پہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال گیا۔

“ہمیں صبح صبح پیدل چلنا بہت پسند ہے۔”

وہ ہونٹوں پہ تبسم بکھیرے دھیرے سے بولی۔ تو وہ اس کی بات سن کر اس کے قدموں کے ساتھ قدم ملاتے چلتے ہوئے مسکرانے لگا۔

“اچھا! اگر ایسی بات ہے تو میں بھی آج تمہارے ساتھ ساتھ پیدل ہی حویلی جاؤں گا۔”

“لیکن ! کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ شانے سے گرتی چادر کو ٹھیک طرح سے رکھتے ہوئے اچنبھے سے بولی درحقیقت وہ اس کی بات سن کر حیرت میں مبتلا ہو گئی تھی۔

“مجھے اچھا لگتا ہے تمہارے ساتھ ساتھ رہنا، تم جو کرو ویسے ویسے کرنا مجھے پسند ہے۔”

وہ نظریں جھکائے بول رہا تھا۔

“لیکن تم اس گاؤں کے چوہدری ہو۔ سب لوگ تمہاری عزت کرتے ہیں۔ تمہارے ایک حکم پہ تمہارے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ تمہیں یہ سب ذیب نہیں دیتا ہے۔”

وہ سنجیدگی سے بولتی اسے سمجھا رہی تھی۔ جبکہ وہ اس کی بات سن کر ایکدم رکا اور اس کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا۔

“محبت میں کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ محبت میں کوئی غریب یا امیر نہیں ہوتا۔ اور جس سے محبت کرتے ہیں اس کی طرح اپنی زندگی کو بنانا اس کی خواہش کے مطابق خود کو ڈھالنا یہی اصل محبت کی حقیقت ہوتی ہے۔ “

وہ بلوری آنکھیں اس کے چہرے پہ ٹکائے بس اس کی باتوں میں گُم کھڑی تھی۔

“میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اب سے نہیں بچپن سے کرتا ہوں۔ جب ہم گڑیوں کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔ جب تم مجھ سے گڈے کی شادی کے لیے لڑتی تھی۔ اور جب میں بارات لے کر تمہاری گڑیا کو لینے آتا تھا تو تم مجھ سے لپٹ کے ایسے روتی تھی جیسے یہ کوئی کھیل نہیں ہے ہم سچ میں گڑیا کو وداع کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! “

مرجان کی آنکھوں کے سامنے بچپن کا وہ سارا زمانہ آ گیا جب وہ اپنی ہر ضد کو پورا کروا لیتی تھی۔ وجاہت اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے اپنے جذبے کی سچائی کا یقین دلا رہا تھا۔

“میری محبت تو تم سے تب بھی نہیں بدلی تھی جب تم مجھے اکیلا چھوڑ کر شہر آ گئی۔ میری محبت کی شدت میں تو تب بھی کمی نہیں آئی جب تم خضر بیگ کے نکاح میں گئی۔”

خضر بیگ ایک نام نہیں تھا وجاہت اپنی محبت کی شدت میں یہ بھول؛ گیا کہ وہ کس کا ذکر کس وقت کر گیا ہے۔ مرجان کی آنکھوں کی پتلیاں نم ہوئی اور بلوری آنکھیں چمکنے لگیں۔

“میری محبت میں تو اس وقت بھی کمی نہیں آئی جب تم اس رات اپنے شوہر کے پہلو میں سیاہ ساڑھی میں ملبوس کسی اپسراء کی مانند بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ اور اسی ایک لمحے میں تمہارے چہرے پہ بے پناہ سکون اور اطمینان دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ تم اپنی زندگی میں بے پناہ خوش اور مطمئن ہو۔ “

وہ بولتا جا رہا تھا اور مرجان کی آنکھوں کے سامنے وہ ایک ایک منظر کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔

“میری محبت میں تو تب بھی کمی نہیں آئی جب خضر بیگ نے تمہیں اس اندھیری رات میں تمہارے کردار کو داغدار تسلیم کرتے ہوئے موسلادھار بارش میں بھی کسی چیز کی پروا کیے بغیر تمہیں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بےدخل کر دیا تھا۔ یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ تم اس وقت اس اندھیری رات میں کہاں جاؤ گی۔”

مرجان کی بلوری آنکھوں کے سامنے وہ منظر آیا تو اس کی روح کو گھائل کرتے زخم اسے مزید درد میں مبتلا کر گئے۔

“مرجان! میرا یقین کرو۔۔۔۔۔! میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ تم وہ سب بھول جاؤ اور میرے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرو میں تمہیں بے حد خوش رکھوں گا۔ پلیز۔۔۔۔۔! مجھے ایک موقع تو دو۔”

وہ اس کا ہاتھ تھامے کسی کی بھی پروا کیے بغیر اس سے اس کی محبت اور خلوص پہ یقین کرنے کی گزارش کر رہا تھا۔ جبکہ مرجان نے یکدم ہی اس کا ہاتھ جھٹکا۔
“محبت ، وفا نام کے الفاظوں سے ہم واقف نہیں ہیں۔”

اس نے اپنے آنسو پونچھے۔

 “ہم ایسے کسی بھی جذبے سے آشنا نہیں ہیں۔”

اس کا لہجہ رندھا ہوا تھا۔ آنکھوں کی پتلیاں سرخ ہو گئیں۔ وہ اس کی آنکھوں میں چھلکتے درد کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔

“اور رہی بات کسی اور کے ساتھ زندگی کو دوبارہ سے نئے سرے سے شروع کرنا یہ ہم سے نہیں ہو گا۔”

وہ اس کے خلوص کو محبت کو ایک ہی پل میں ٹھکرا گئی۔ انکار کی لذت سے ناآشنا وجاہت اس ایک لمحے میں نامعلوم درد سے شناسا ہوا۔

“لیکن کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ اپنے درد پہ تکلیف پہ قابو پاتا مختصر سا سوال کر گیا۔

” ہمارے پاس آپ کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں ہے۔”

وہ رخ موڑتے ہوئے بات کو نظرانداز کر کے جانا چاہ رہی تھی۔ لیکن وجاہت کو نامعلوم کیا ہوا وہ بضد اس کے سامنے کسی چٹان کی مانند کھڑا ہو گیا۔
“مجھے جاننا ہے سب آج تم میرے سوال کا جواب دیے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتی۔”

“ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔! تو پھر سنئیے مرجان افتخار اپنے بابا کے کیے گئے آخری فیصلے کو تاحیات پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ نبھائے گی۔ “

وہ الفاظ چبا چبا کر زور دیتے ہوئے شدتِ غصہ سے سب بیان کر رہی تھی۔ وجاہت کو اس کی یہ دلیل بے حد فضول سی لگی۔

“یہ کیا بات ہوئی مرجان۔۔۔۔۔! زندگی اب بہت بدل چکی ہے۔ افتخار چچا نے تمہارے لیے ایک غلط فیصلہ لیا تھا اور اب میں تمہیں اپنی ساری زندگی اس غلط فیصلے کی آگ میں خود کو جھونکنے نہیں دوں گا۔”

وہ انگشتِ شہادت اسے دکھاتے ہوئے اپنے ضبط کا دامن تھامے بولا تو وہ بھی جو کچھ دیر پہلے اس سے نظریں جھکائے بات کر رہی تھی اب ساری حدوں کو ایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔

“تو کیا کریں گے آپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ استفہامیہ انداز میں بولی۔

“میں کورٹ میں تمہاری خلع کے لیے درخواست دائر کروں گا۔”

وہ حکمیہ انداز میں بولا۔ جیسے خود سے ہی سارے فیصلے کر بیٹھا ہو۔
“ہم آپ کو کبھی بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے۔”

وہ نظریں چراتے ہوئے ہربڑا کر بولی۔

” میں ایسا ہی کروں گا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ خضر بیگ سے مرجان افتخار کو آزادی وجاہت ہی دلوائے گا۔ “

“ہم کبھی بھی آپ کو ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانے دیں گے۔”

وہ بے تحاشا آنسو آنکھوں میں لیے بولی تو وجاہت کو اس کی آنکھوں کی نمی چبھی۔

“مرجان ایسے انسان کے پیچھے ساری زندگی خوار ہونے سے بہتر ہے اس سے علیحدہ ہو جاؤ ۔”

اب کے وہ اپنا سارا غصہ پیتے ہوئے اسے دھیمے لہجے میں سمجھانے لگا۔

“ہم کبھی بھی خضر بیگ سے علیحدگی کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر وہ ہمیں طلاق دینا چاہیں تو یہ ان کا فیصلہ ہو گا ہم کبھی بھی ان کے کسی فیصلے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔”

وہ معصومانہ انداز میں بولتی اس کے دل کے آر پار گئی۔ اس ایک لمحے میں وجاہت کو اس کی معصومیت پہ بے حد پیار آیا۔ وہ چپ سادھے کھڑا اس کی بلوری آنکھوں میں جھلمل ستاروں کی طرح چمکتے آنسوؤں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ ہولے ہولے قدم بڑھاتی حویلی کو جانے والے رستے پہ گامزن تھی۔ وہ بھی بنا کچھ بولے بس اس کے قدموں سے قدم ملاتے چلنے لگا۔

                                            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“سر! یہ پرپوزل اسیپٹ کرنے میں ہماری بہت بڑی کامیابی ہو گی۔”

عمران نے کانفیڈنس سے کہا تو عاشر نے حیرت سے اس سے پوچھا۔

“لیکن اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے۔ پلیز اگر آپ اس کی وضاحت کریں گے تو ہم باآسانی فیصلہ کر سکیں گے۔ کیوں خضر میں نے صحیح کہا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

عاشر جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ عمران کے پرپوزل کو سن رہا تھا پھر اس کے پہرپوزل کی ایکسپلینیشن معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ جب اس نے خضر کو کھوئے ہوئے دیکھا تو کانفرنس روم میں چلنے والی اس امپورٹنٹ میٹنگ میں اس کو مکمل طور پر شامل کرنے کے لیے اس کا نام پکارا تو وہ ایکدم سے چونک گیا اور حیرت سے عاشر کی جانب اور پھر عمران کی جانب متوجہ ہوا جو ایک اہم پوائنٹ ڈسکس کر رہا تھا۔

“سر! ایک تو اس پرپوزل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ لاسٹ ٹائم جب خضر سر نے بولا تھا کہ وہ کچھ چیرئیٹی کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بڑا موقع ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتا میں نے اس پرپوزل کے ہر پوائنٹ پہ غور کر لیا ہے۔ یو۔ایس۔اے میں ایک اورئینٹڈ ہاسپٹل ہے انہیں کچھ فنڈز چاہئیں۔ وہ دراصل ایک چیرئیٹی ہاسپٹل ہے۔ وہاں پہ دوسرے بھی بڑے بڑے ممالک کے لوگ ہاسپٹل کو فنڈنگ کرتے ہیں۔ یہ دراصل بلڈ کینسر کا شکار بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی خصوصی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فنڈزاکٹھے کرتے ہیں۔ اور دنیا بھر کے بڑے بڑے بزنس مینز صرف بچوں کی بہتر دیکھ بھال سے متاثر ہو کر اس ہاسپٹل کو فنڈنگ کرتے ہیں۔ اس پرپوزل کو قبول کرنے سے ہمارا چیرئیٹی فنڈنگ والا ایک مشن بھی کمپلیٹ ہو گا اور دوسرا ہم نے جو یو۔ایس۔اے ملٹی نیشنل اریز کمپنی کے ساتھ نئے پراجیکٹ پہ ورک کرنے کی حامی بھری ہے وہ بھی تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ ہم سب ایک بزنس ٹؤر کے طور پر یو۔ایس۔اے جائیں گے اور ہاسپٹل کی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ ان معصوم بچوں سے بھی مل لیں گے اور ساتھ ساتھ اریز کمپنی کے ساتھ جو ہماری بزنس میٹنگ چلنی ہے اس کو بھی پورا کر لیں گے۔”

عمران کی ساری باتیں خضر بیگ بغور سن رہا تھا۔ اس نے گلاسز اتار کر میز پہ رکھے اور عاشر کی جانب دیکھنے لگا وہ بھی کچھ سوچنے میں مشغول تھا۔ پھر خضر بیگ بولا۔

“ٹھیک ہے ہم شام تک آپ کو سب فائنل کر کے بتاتے ہیں۔”

خضر کا پرسکون لہجہ عاشر کو کچھ باور کروا گیا۔ سب اپنی اپنی فائلز اٹھائے کانفرنس روم سے باہر آ گئے۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور فائل اس کے سامنے اس کی میز پہ رکھتے ہوئے بولا۔

“کیا ہمیں اس پرپوزل کو اسیپٹ کر لینا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ معنی خیز انداز میں کچھ سوچتے ہوئے اس سے سوال کر گیا۔

“جہاں تک مجھے لگتا ہے تم اس میں کافی انٹرسٹڈ ہو اور اس پرپوزل پہ ورک کرنا چاہتے ہو۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے تم اس ہاسپٹل میں جا کر ان بچوں سے ملنا چاہتے ہو۔ بحرحال فیصلہ تمہارا ہے جو تمہیں مناسب لگتا ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔”

عاشر نے ہاتھ اٹھا کر اسے دکھائے اور پرسکون انداز میں کہا تو وہ تھوڑا سا ہونٹوں کو پھیلا کر مسکرایا۔

“میں ان بچوں سے ملنا چاہتا ہوں میں ان بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔”

بہت دیر کے بعد آج اس کے الفاظ جذبات میں گھرے تھے۔ عاشر کو اس کا انداز اچھا لگا۔ اس کے اندر جذبات کی روانی دیکھ کر اس کو دل کو سکون ملا۔

“تو ٹھیک ہے میں کنفرم کرتا ہوں سب کچھ تو پھر چلتے ہیں ہم وہاں۔”

“اوکے۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ مختصر انداز میں جواب دیتے ہوئے اٹھا اور اپنی کچھ ضروری چیزیں لیے وہ کانفرنس روم سے باہر آ گیا۔

                                            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“مجھے بس اس بات کا جواب چاہئیے تم ہم سب کی زندگی سے چلی کیوں نہیں جاتی ہو۔۔۔۔۔۔؟”

وہ بے انتہاء غصے میں اس کے پاس کھڑی اس پہ بے تحاشا چلا رہی تھی۔

“چلے جائیں گے ہم بہت جلد۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ بات ادھوری چھوڑتے ہوئے رخ موڑ گئی۔

“مجھے بس اس بات کا جواب چاہئیے تم میرے اور وجاہت کے درمیان سے کب ہٹو گی۔ تمہیں معلوم ہے جب وجاہت تمہیں دیکھتے ہیں تو اس کے بعد وہ کسی اور کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ انہیں کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔”

وہ اسے بتا رہی تھی یا پھر وہ اسے اس کے سامنے ہی اس کی محبت کو کسی اور کی جانب متوجہ دیکھ کر اپنی بےبسی سے اسے آگاہ کر رہی تھی۔ مرجان نے اب کی بار اس کی جانب دیکھا تو اس کی کانچ سی آنکھوں میں وجاہت کے لیے بے پناہ پیار دیکھ کر اسے اس پہ بہت رشک آیا۔

“ہم جانتے ہیں آپ وجاہت سے بے پناہ محبت کرتی ہیں زرینہ۔۔۔۔۔۔! اور ہمارا یقین کریں ہم کبھی بھی آپ کے اور وجاہت کے درمیان نہیں تھے اور نہ ہی کبھی ہوں گے۔ “

وہ معصومانہ انداز میں اسے اپنی سچائی کا یقین دلا رہی تھی۔زرینہ اس کے شانے پہ ہاتھ دھرے اس کے چہرے پہ نظریں گاڑے بولی۔

“پھر وجاہت کیوں نہیں میری طرف دیکھتے انہیں کیوں نہیں میری محبت نظر آتی انہیں کیوں نہیں میری آنکھوں میں ان کے لیے بے پناہ پیار نظر آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ روہانسی ہوتے ہوئے بولی تو مرجان نے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا اور اسے پاس ہی پڑی کرسی پہ بٹھایا اور بولی۔

“ہم خضر بیگ کی امانت ہیں۔ بھلے ہی ہمارا کردار داغدار ہے لیکن ہم صرف خضر بیگ سے محبت کرتے ہیں وہی ہماری زندگی میں ہمارا سب کچھ ہیں۔ اور اگر کبھی انہوں نے ہمیں نکاح کی قید سے آزاد بھی کر دیا تب بھی ہم اپنی ساری زندگی ان کے نام پہ تن تنہاء گزار دیں گے۔”

زرینہ اس کی بات سن شل ہو گئی۔ وہ حیرت سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔ ایک عورت کا ظرف اتنا بھی بلند ہو سکتا ہے کہ جو مرد اس کے کردار پہ انگلی اٹھائے اور اس کے ساتھ رہنے کے باوجود بھی اس کے کردار کی گواہی نہ دے سکے اور اس کا محافظ بننے کی بجائے اس کی توہین کر کے اسے زمانے کی رسوا دھول کو سونپ کر اپنا دامن جھاڑ کر ایک سائیڈپہ ہو جائے اور وہی عورت اس کی محبت میں سب کچھ بھول کر پھر بھی اس کے نام پہ ساری زندگی گزارنے کا عزم کرے ایسی عورت کو زمانے میں کوئی مقام کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ عورت کی توقیر تو صدیوں سے ہی زمانے کی بے لگام رسوم کی مقید رہی ہے۔

وجاہت کسی کام سے اس طرف آیا تو زرینہ کے چیخنے کی آواز پہ دروازے کو پار کرتا کرتا رک گیا اور پھر مرجان کی خضر سے اطرافِ محبت اس کے اندر جلنے والی آگ کو مزید بھڑکانے کی بجائے اسے کہیں بجھا سی گئی جب مرجان نے زرینہ کو اس کی محبت دینے کا وعدہ کیا۔

“زرینہ! زندگی میں کبھی بھی سب کچھ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا لیکن وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ان کی محبت مل جاتی ہے۔ اور اگر وہی محبت آپ کا ہمسفر بن جائے تو زندگی کی آدھی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم تم، سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو آپ کی محبت ضرور حاصل ہو گی۔ اور یہ مرجان افتخار کا وعدہ ہے آپ سے۔ ہم پہ بھروسہ رکھیے۔”

وہ اسے یقین دلا رہی تھی۔ زرینہ کو ایک لمحے کے لیے لگا اس کی بات پہ یقین کر لے اور کسی حد تک وہ اس کی سچائی تسلیم بھی کر گئی تھی۔ وجاہت کو اس کا اقرار اور زرینہ سے کیا گیا عہد بری طرح مسمار کر گیا۔ اس کے دل کو کہیں ٹھیس سی لگی۔ وہ آنکھوں میں نمی کی چمک لیے واپس قدم بڑھا گیا۔

زندگی کے عجیب ہی رنگ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات جس کے لیے ہم ساری دنیا سے لڑ جاتے ہیں اسی انسان کی آنکھوں کی نمی ہمیں اس قدر توڑ دیتی ہے کہ ہم اس کی خوشی کے لیے سب کر جانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ اس انسان کی خوشی ہمیں اس قدر عزیز ہوتی ہے کہ اس کی خوشی کے لیے ہم اپنی ضد اور انا کو ایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اس کے لیے سب کر جاتے ہیں۔ محبت بھی بڑی عجیب شے ہے۔ اور شاید وجاہت اسی محبت کی شدت میں اس ایک لمحے میں کئی فیصلے کر گیا۔

                             

حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے

باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے

ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی

اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے

اک حجابِ تہہ اقرار ہے مانع ورنہ

گل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے

ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے

اور یہ صحرا ترا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے

یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی

اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے

رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن

رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی

اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“چلو باہر کہیں اوٹننگ پہ چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔!”

اس نے مسکرا کر ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تو وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے بولی۔

“نہیں ! میرا موڈ نہیں ہے۔”

“کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ زور دیتے ہوئے سوال کر گیا اور اس کے قریب صوفے پہ بیٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما۔

“میرا دل مرجان سے بہت اداس ہے۔ “

آنکھوں میں نمی لیے وہ غمگین لہجے میں بولی۔ تو عاشر کو اس کی اس ادا پہ بے حد پیار آیا۔
“ہمممممممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔! “

وہ پرسوچ نگاہوں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ جبکہ وہ نگاہیں جھکائے ہاتھ باندھے چپ چاپ بیٹھی تھی۔

“مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی ہے آخر اس رات مرجان سٹیج سے بیڈ روم کب گئی اور پھر وہ سب کیسے اور ریحان کیسے مرجان بھابھی کو جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ سارے سوال جب جب بھی میں سوچوں مجھے بہت ڈسٹرب کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی سوال کا کوئی جواب ملنے سے بھی نہیں مل رہا۔”

وہ کچھ جھنجھلا کر بولا۔

“کیونکہ ان سارے سوالوں کے جواب یا تو مرجان دے سکتی یا پھر خضر بھائی۔۔۔۔۔۔! اور ان دونوں نے تو کسی بھی بات کا جواب نہ دینے کی ضد پکڑ رکھی ہے۔ خضر بھائی مرجان کو اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں اور مرجان وہ تو بس چپ سادھے ہر بہتان پہ خاموش بت بنی بیٹھ گئی ہے۔ اور خود کو خود ہی سزا دیتے ہوئے گاؤں کی حویلی میں پناہ لے چکی ہے۔ میرے ساتھ تو بات بھی نہیں کرتی۔”

اس کا لہجہ رنجور ہو گیا۔ آنکھوں میں کئی ٹمٹماتے تارے عاشر کے دل کو ہولا گئے۔

“میں ایک بات بولوں۔”

وہ محتاط انداز میں بولا۔

“کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ سوالیہ نظریں اس کے چہرے پہ گاڑے اس کی بات کی منتظر تھی۔

“کیوں نا تم گاؤں چلی جاؤ مرجان بھابھی کے ساتھ وقت گزارو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں ساری بات بتا دیں اور پھر ہم اس مسئلے کو اور خضر کو جو غلط فہمی ہوئی ہے اسے دور کر سکیں۔ اور سب سے اہم اس انسان تک پہنچ سکیں جس کی غلیظ سوچ کی بھینٹ خضر اور مرجان کی زندگی چڑھ گئی ہے۔ اس انسان تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ جس نے بڑی سفاکیت کے ساتھ ان دونوں کی زندگی میں زہر گھولتے ہوئے ایسا کام کیا ہے وہ دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی ذات سے نفرت کا ڈھونگ کر رہے ہیں۔”

رمشا بغور عاشر کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ کو بغور سن رہی تھی۔ اور اس کی ہر بات میں سچائی ہی سچائی تھی۔

“ٹھیک ہے میں صبح ہی بابا کے ساتھ گاؤں چلی جاتی ہوں۔ “

وہ کچھ سوچتے ہوئے جھٹ سے بولی تو وہ بھی اس کی بات سنتے ہی سرعت سے بول پڑا۔

“لیکن ! ایک بات ذہن میں رکھنا۔”

وہ سنجیدگی سے اسے کچھ باور کروانا چاہ رہا تھا۔

“وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ جھٹ سے بولی۔

“گاؤں جانے کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہئیے۔”

وہ مختصراً بولتے ہوئے اسے بہت کچھ سمجھا گیا۔

“اوکے۔۔۔۔۔۔۔! فائن۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ بھی اس کی ڈھکی چھپی بات کا مطلب بخوبی سمجھ گئی۔

پھر وہ اس کے ساتھ نارمل باتیں کرتے ہوئے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرنے لگا جبکہ اس کا ذہن وہیں مرجان کی فکر میں گھل رہا تھا۔ اسے مرجان کی فکر اندر ہی اندر کھا رہی تھی۔

                                    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ول یو میری می۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے وہ محبت سے بولی تو ایکدم ہی اس کی بات سن کر وہ چونک گیا اور اس کی جانب دیکھنے لگا۔

“خضر بیگ۔۔۔۔۔۔! ول یو میری می۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اسے مسلسل خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ سے فرطِ جذبات میں بولی تو خضر بیگ نے ایک ہی لمحے میں اپنے ہاتھ پر سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

“آر یو میڈ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ اپنے غصے پہ قابو رکھتے ہوئے اس پہ چیخا۔ ارد گرد کے لوگوں کی پروا کیے بغیر۔ وہ اس وقت ایک فائیو سٹار ہوٹل کے اوپن ایریا میں خوبصورت کیبنز میں بیٹھے تھے کافی کا ایک سپ لیتے ہوئے سارہ کی بات سن کر تو جیسے کافی کا ذائقہ ہی بدل گیا۔ وہ آفس سے نکلا تو راستے میں سارہ کی کال نے اور پھر کافی پینے کے اصرار نے اسے مجبور کر دیا۔ تو وہ اس کی دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے اس کے ساتھ کافی پینے آ گیا بٹ سارہ کی کہی ہوئی بات اس کا موڈمزید خراب کر گئی۔

“بٹ وائے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ تعجب سے سوال کر گئی۔

“کوئی اور بات کرنے ہے تو ٹھیک ورنہ میں چلتا ہوں۔”

وہ چڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور صاف بولتے ہوئے اپنے گلاسز ناک پہ ٹکا گیا۔

“خضر ! اس میں برائی کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ بھی جھنجھلا کر اور اس کے اس طرح ری ایکٹ کرنے پہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے محبت سے بولی۔ تو خضر بیگ کو اس کی اس حرکت پہ مزید غصہ آ گیا۔

“مجھے لگتا ہے مجھے یہاں سے چلے جانا چاہئیے۔”

وہ اپنی کی چین اٹھاتے ہوئے جانے ہی لگا تھا کہ سارہ کی آواز پہ اس کے قدم رک سے گئے۔

“یہ سب تم اپنی اس سو کولڈ گھٹیا، بدکردار بیوی کی وجہ سے کر رہے۔”

سارہ کی ذہنیت پہ اسے افسوس ہوا اس نے رخ موڑ کر سارہ کی جانب دیکھا ایک ایجوکیٹڈ لڑکی کیسے اس طرح کی زبان استعمال کر سکتی ہے یہ سوچ خضر بیگ کو اس کی تربیت پہ سوال اٹھانے پہ مجبور کر رہی تھی لیکن ثمن بیگم کی تربیت نے اس کو روک لیا۔

“تم یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ تمہاری بیوی ایک بدکردار عورت ہے اور اس نے تمہارے ساتھ بیوفائی کی ہے تمہارے ہی گھر میں تمہارے ہی نکاح میں رہتے ہوئے وہ تمہاری ہی موجودگی میں تمہارے بیڈروم میں کسی اور کے ساتھ رنگ رلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

“شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔۔!”

ایک زوردار طمانچہ سارہ کے گالوں پہ انگلیوں کے کئی نشان چھوڑ گیا۔ سارہ کی بدتہذیبی خضر بیگ کے کان برداشت نہ کر پائے اور اس سے پہلے کہ وہ مزید اس کی بیوی کی شان میں قصیدے پڑھتی خضر بیگ نے ایک زوردار تھپڑ رسید کرتے ہوئے اس کی زبان پہ تالہ لگایا۔

“شٹ اپ سارہ۔۔۔۔۔۔۔۔! شٹ یور ماؤتھ۔۔۔۔۔۔۔۔!”

سارہ کی آنکھوں میں جھلمل ستارے جگمگائے وہ ابھی تک اپنے حواس میں نہیں ائی تھی۔ آج پہلی بار خضر بیگ نے کسی عورت پہ ہاتھ اٹھایا تھا۔ اور یہ حد اس نے صرف اس لیے پار کی تھی کہ ایک عورت نے دوسری عورت کے کردار کی اتنی دھجیاں اڑائی تھیں کہ خضر بیگ کی سماعتیں مزید تضحیک آمیز الفاظ برداشت نہ کر پائیں۔

“اب مزید ایک اور لفظ بھی مرجان کے خلاف نہیں سنو گا میں۔”

وہ انگشتِ شہادت اسے دکھاتے ہوئے اس کے قریب آیا اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے جھملائے۔ سارہ کو اس کی حرکت پہ اس قدر غصہ آیا اس کا دل چاہا اس کا گریبان پکڑ کر بے غیرتی کے ایسے ایسٓے نشتر اس پہ نچھاور کرے کہ خضر بیگ خود ہی شرم کے مارے کہیں مر جائے۔ لیکن نہیں وہ ایسا نہ کر سکی اور خونخوار نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

” میں تم سے محبت کرتی ہوں اور شادی کرنا چاہتی ہوں تم سے۔”

وہ اپنے غصے پہ قابو کرتے ہوئے کانپتے لہجے کے ساتھ بولی تو وہ قہر آلود بگاہیں اس پہ ڈالتے ہوئے چیخا۔

“خضر بیگ کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کون اس سے محبت کرتا ہے اور کون نہیں میرے لیے سب سے اہم بات ہے تو وہ صرف یہ کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی عورت سے محبت کی ہے اور وہ ہے مرجان افتخار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس کے علاوہ نہ میں نے کبھی کسی کی جانب دیکھا ہے اور نہ مجھے کسی دوسری عورت میں کوئی انٹرسٹ ہے۔”

وہ پراعتماد انداز میں کہتا ہوا اب اس سے دو قدم دور ہٹا۔ کیبن کے ارد گرد کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ خضر بیگ کو اندازہ تھا کہ سارہ کی بےوقوفی دنیا کے سامنے اس کا تماشا ضرور لگائے گی اور آج ایسا ہونا لازمی تھا۔

“ایسی عورت سے محبت کا فائدہ جو تمہیں چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ اب تو اس کے خمار سے باہر آ جاؤ اس کی بناوٹی محبت سے خود کو آزاد کرو تو جان پاؤ گے کچھ لوگ تم سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔”

سارہ اپنی زلفیں پیچھے کرتے ہوئے اس کے پاس آئی اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔ ان آنکھوں میں سوائے درد کے تکلیف کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وہ آنکھیں تو بالکل بھی نہیں تھیں جن میں غرور تھا جن میں فخر تھا۔ جو شان سے اٹھتی تھیں۔ جن میں خوشی چھلکتی تھی۔ اور اب تو وہاں ویرانی ہی ویرانی تھی۔

“میں مرجان افتخار سے محبت کرتا ہوں وہ جیسی بھی ہے وہ جیسی بھی تھی مجھے اب اس سے کوئی سروکار نہیں ہے میری زندگی کی پہلی اور آکری عورت صرف وہی تھی۔ اس کے بعد اور اس سے پہلے بھی اس کے سوا کوئی نہیں تھا اور اب اس کے جانے کے بعد بھی کوئی اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ “

وہ آنکھوں میں انکھیں ڈالے بول رہا تھا۔ سارہ کو اس کی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی خضر نے اپنے بازوؤں کو اس کے نازک ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کیا اور ایک بار پھر اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔
“آج کے بعد میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے آج کے بعد مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔ میں آج ابھی اسی وقت تم سے اٌپنی دوستی ختم کرتا ہوں اور نیکسٹ کوشش کرنا میرے سامنے نہ ہی آؤ۔ تمہیں میں جاب سے ابھی فائیر کرتا ہوں امید ہے تم صبح اپنا ریگزنیشن لیٹر کمپنی کے اسسٹنٹ کو جمع کروا دو گی۔ “

“نہیں خضر ! تم ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔۔!”

وہ زور سے اس کا بازو دبوچے بولی۔

“تم میرے ساتھ اپنا تعلق ختم نہیں کر سکتے۔ دیکھو! ہماری دوستی تو بچپن کی ہے۔ تم ایسے کیسے مجھ سے اپنا تعلق توڑ سکتے۔”

آنکھوں سے موتی تواتر سے بہہ رہے تھے۔ وہ اس کا بازو دبوچے اس سے سوال کر رہی تھی۔ جب کہ وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے اب کی بار اس کی نازک انگلیوں کی گرفت سے اپنا بازو آزاد کرتے ہوئے بولا۔

“گُڈ بائے سارہ۔۔۔۔۔۔۔! ٹیک کئیر یور سیلف۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ درشت نگاہ اس پہ ڈالتے ہوئے تیکھے انداز میں بولا تو سارہ کا سارا وجود اس کے لفظوں کے نشتروں سے گھائل ہوا۔

“خضر ! پلیز۔۔۔۔۔۔! “

وہ گرگرائی۔ لیکن وہ کب اس کی سننے والا تھا۔ وہ آگے کی جانب قدم بڑھا گیا۔ ہوٹل کی انتظامیہ ان کا تماشا دیکھ رہی تھی۔

” پلیز خضر۔۔۔۔۔! آئی لو یو سومچ۔۔۔۔۔۔۔۔! میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔”

وہ گرگراتے ہوئے نیچے فرش پہ بیٹھ گئی اس کے پیچھے جانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ تیز تیز قدم بڑھاتا اب کافی دور تک آ گیا۔

“پلیز خضر ! میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔”

وہ چلا رہی تھی رو رہی تھی لیکن اس کے رونے کی، اس کے چلانے کی، اس کے آنسوؤں کی پروا کسے تھی۔ آنکھوں کے رستے کاجل کی ساری دھاریں بہہ گئی۔ اس کے رخساروں پہ کئی سیاہ نشان چھوڑ گئیں۔

                                 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

At last, when all the summer shine

That warmed life’s early hours is past,

Your loving fingers speak for mine,

And hold them close-at lost at last,

Not of the robbin comes to build

Its nest upon the leafless bough

By autumn robbed, by winter chilled,

But you dear heart, you love me now,

Though there are shadows on my brow

And furrows on my cheeks, in truth……

The marks where times remorse less plow

Broke up the blooming sword of youths

Though fled is every girlish grace

Might win or hold a lover’s vow,

Despite my sad and flawed face,

And darkened heart, you love me now,

I count no more my wasted tears, they left no echo of their fall,

I mourn no more my lonesome some years

This blessed hour atones for all

I fear not all that time or fate

May bring to butden heart or borrow – strong in the love that

Come so late

Our souls shall keep it always now,

نم آنکھوں کے ساتھ سگریٹ کا دھواں چھلکاتے وہ خود کو روم میں بند کیے بیٹھا کسی کی یادوں کے حصار میں خود کو قید کرتا اپنی روح کے گھائل زخموں کو مزید گھائل کرتے ہوئے اپنے درد پہ اپنی تکلیف پہ اور اپنے زخموں پہ خود ہی مرہم لگا رہا تھا۔ وہ کھلکھلاتی ہنسی، وہ سادگی میں معصومیت کی انتہاء کو چھوتی اس کی مسکان ، بلوری آنکھوں میں بلاوجہ چمکتے موتی اور بغیر کسی وجہ کے اس کا گھبرا کر اپنی انگلیاں مسلنا نظریں جھکا کر ہر بات کا جواب دینا آج وہ سب اسے بے حد یاد آ رہا تھا۔ خوشیوں کا محل ابھی بسا ہی کہاں تھا کہ بے یقینی کی کئی دراڑیں محل کو ویران کر گئیں۔ زندگی تو جیسے ویران جنگل کی عکاسی کر رہی تھی۔ وہ بیگ ہاؤس جہاں خضر کی بارعب شخصیت نے باوقار ابی کی چھاؤں میں پرورش پائی تھی۔ جہاں ہر چیز تہذیب کے دائرے میں رکھی جاتی تھی، جہاں ثمن بیگم کے سادہ مزاج نے اور خوش اخلاق طبیعت نے سب کے دلوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا آج وہاں سب کچھ بدل گیا تھا۔ خوشی کی کوئی قلقاری سنائی نہیں دیتی تھی۔ ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ زندگی نے تو عجب موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا۔ رشتوں کی مالا میں ایک ساتھ جڑ کر رہنے والے بیگ ہاؤس کے درودیوار اب ویران اور سنسان تھے۔

                                    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“میں نے سب کچھ کیا صرف اپنی محبت کو پانے کے لیے۔۔۔۔۔۔!”

وہ زور سے چلائی اور ڈریسنگ پہ موجود ہر چیز ایک ہی زوردار جھٹکے سے ہاتھ مارتے ہوئے زمین بوس کر دی۔ شیشے کی کئی کرچیاں فرش پہ اچھلی۔ اور سارے فرش پہ بکھر ھئیں۔

“سارہ میری جان ! کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ملیحہ نے اس کی حالت کو دیکھا تو اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کرتے ہوئے اسے سنبھالنے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے ایک ہی جھٹکے میں انہیں خود سے دور کر دیا آنسوؤں سے چہرا اٹا ہوا تھا۔ کاجل رفتہ رفتہ بہہ کر رخساروں کو سیاہ کر گیا۔ خوبصورت ریشمی بال بکھر کر چہرے پہ پھیلے ہوئے تھے۔ وہ اٹھی اور سرعت سے بیڈ کی چادر تکیے اتار کر زور سے زمین پہ دے مارے۔

“یہ سب کچھ صرف اور صرف اس مرجان کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں نے کیا کچھ نہیں کیا اسے خضر کی زندگی سے باہر نکال کر پھینکنے کے لیے۔ اور آج خضر بیگ نے پھر اسی مرجان کی وجہ سے اس کی سو کولڈ محبت کی وجہ سے آج پھر مجھے سارہ کی محبت کو ٹھکرا دیا مجھ سے اپنا تعلق ختم کر کے چلا گیا۔ “

وہ چہرے پہ بکھرے آنسوؤں کو زور سے مسلتے ہوئے بولی۔ تو ملیحہ اس کے قریب آئیں اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے مامتا کی چھاؤں میں اسے پناہ دیتے ہوئے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ وہ بے پناہ ہچکیاں لیتے ہوئے رو رہی تھی۔

“خضر بیگ نے مجھے اج ایک بار پھر ٹھکرا دیا مجھے تنہاء چھوڑ دیا ۔”

وہ زاروقطار روتے ہوئے بولی۔ ملیحہ کے شانے اس کے آنسوؤں سے نم ہو گئے۔ ان کی نمی انہیں باقاعدہ محسوس ہو رہی تھی۔

“میری جان جو ہونا تھا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔! تم اس سب کو بھول جاؤ۔”

وہ اس کی کمر پہ ہولے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ لیکن وہ یہ بھول گئی تھیں کہ ان کی بے جا حمایت نے اسے ضدی بنا دیا تھا زمانے سے لڑ کر اپنی ضد کو پورا کرنا اور چھین لینا اس نے اپنی ماں سے ہی سیکھا تھا۔

“اللہ نے خضر بیگ سے بھی کئی گنا بہتر انسان تمہاری زندگی میں لکھا ہو گا میرا یقین کرو میری جان۔۔۔۔۔۔!”

“نو مام۔۔۔۔۔۔!”

وہ ایکدم ہی ملیحہ سے الگ ہوئی۔ اور جنونیت سے بولی۔

“سارہ کی زندگی میں اگر خضر نہیں ہے تو سارہ کو یہ زندگی بھی نہیں چاہئیے۔”

وہ جنون سے اٹھی اور بڑی سرعت سے روم سے باہر آئی۔ ملیحہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگیں۔ اس کا جنون دیکھ کر ان کا دل دہل سا گیا۔ ان کا سارا وجود کانپنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے تیزی سے چل رہی تھیں لیکن اس کے قدموں کی تیزی ان سے کہیں زیادہ تھی۔

“دیکھو سارہ میری جان! خود کو سنبھالو۔ پلیز ! میری جان!”

ایک ہی لمحے میں ان کی جان نکل گئی۔ وہ تیزی سے کچن کی جانب بڑھی اور سرعت سے ڈور کو لاک کیا۔ وہ باہر دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑی زور زور سے دروازہ پیٹنے لگیں۔

“نہیں مام! اگر خضر میری زندگی میں نہیں ہے تو مجھے یہ زندگی بھی نہیں چاہئیے۔”

وہ زور زور سے چیزیں ادھر ادھر پھینکنے لگی شاید کچھ تلاش کر رہی تھی۔ ملیحہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھیں۔

“سارہ! نہیں کچھ نہ کرنا پلیز۔۔۔۔۔! میری جان! ماما کی جان۔۔۔۔۔! خود کو کوئی نقصان نہ پہنچانا۔ میرا تم سے وعدہ ہے خضر بیگ تمہارے ساتھ شادی ضرور کرے گا۔ وہ صرف تمہارا ہی ہے۔”

وہ اب اپنے حواس بے قابو ہوتے ہوئے محسوس کر رہی تھیں۔ ان کا سارا وجود ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ ان کی کل کائنات تو صرف ان کی بیٹی ہی تھی۔ اور اب خضر کی محبت کا جنون اس کے سر پہ ایسا سوار تھا کہ وہ خود کو نقصان پہنچانے والی تھی لیکن ملیحہ کی بے بسی کی انتہاء تو دیکھو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی بیٹی کو یہ انتہائی قدم اٹھانے سے روک نہ پائیں۔

“خضر! آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔!”

ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ تیز چاقو تھامے وہ آنسوؤں میں بھیگتے رخساروں کے ساتھ اپنی کلائی زور سے کاٹ بیٹھی۔ خون کی تیز رفتار دھار چند ہی لمحوں میں اس کے سارے وجود کو بھگو گئی۔ اس نے نجانے کتنے ہی چاقو کے وار اپنی کلائی پہ کیے۔ ملیحہ باہر چیختی چلاتی رہپیں سارہ کے لبوں سے آخری وقت تک بس یہی الفاظ نکل رہے تھے۔

“خضر! آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔! خضر! آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔۔۔۔!”

اس کی جنونیت سے بھری آواز جیسے جیسے دھیمی ہوتی گئی ملیحہ کی بے چینی میں کئی گنا اضافہ ہوتا گیا۔ وہ زور زور سے دروازہ بجا رہی تھیں۔

“کوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ پلیز ہیلپ می۔۔۔۔۔۔۔! کوئی تو آئے میری بچی کو بچا لے۔۔۔۔۔۔! نہیں سارہ میری جان پلیز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔! “

ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ کانپتے وجود تلے بوکھلائے لہجے کے بساتھ نجانے وہ کیا کیا بول رہی تھیں ۔لیکن افسوس صد افسو آج کوئی بھی ان کی چیخ و پکار پہ ان کی مدد کے لیے نہیں آیا تھا۔ خضر کا نمبر نجانے کتنی بار وہ ڈائل کر چکی تھیں۔ لیکن اس کا نمبر آف تھا۔ عاشر کے نمبر پہ بھی کال ملا چکی تھیں لیکن وہ سائلنٹ پہ لگا کر رمشا کے ساتھ باتوں میں مگن تھا۔ کیونکہ صبح فجر کے وقت اس کی اور خضر بیگ کی فلائٹ تھی یو-ایس-اے کے پرپوزل پہ انہیں ارجنٹ جانا پڑ رہا تھا سو وہ اپنا زیادہ تر وقت رمشا کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔

انسان بعض اوقات اتنا بے بس ہوجاتا ہے کہ چاہ کر بھی وہ اپنے بکھرتا ہوا دامن سمیٹ نہیں پاتا اور اسی مقام پہ اسے اندازہ ہوتا ہے کوئی ذات موجود ہے جو اس کے ہر عمل پہ اس سے حساب لینے والی ہے اگر انسان اس بات کو سمجھ جائے تو شاید وہ کسی دوسرے انسان کی زندگی برباد کرنے کے لیے اتنے گھناؤنے کھیل نہ کھیلے۔

                                                    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے

آخری اقساط بہت جلد۔۔۔۔۔۔!!!۔

https://www.hinashahidofficial.com/

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

2 Comments

  1. Can I simply just say what a relief to uncover someone that truly understands what theyre talking about online. You certainly realize how to bring a problem to light and make it important. A lot more people have to check this out and understand this side of your story. I was surprised you arent more popular given that you definitely have the gift.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button