رومینٹک ناول

Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 6

 

خمارِ جاں 
تحریر
حناء شاہد
قسط نمبر  6  :
            
آسمان پر بادلوں کی آنکھ مچولی جا رہی تھی۔ چاند کی چاندنی پورے آب و تاب سے پھیلی ہوئی تھی۔ ستارے مسکرا رہے تھے۔ مگر کچھ کچھ توقف کے بعد ستارے بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتے۔ ابھی بھی آسمان پر یہی کھیل جاری تھا۔ چاند گہرے بادلوں کی ٹکڑیوں کے پیچھے دھندلا کر بھی اپنی چاندنی کو پورے وثوق کے ساتھ آسمان پر پھیلائے ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ قریبی مسجد میں لاؤڈ سپیکر گونجا اور امام مسجد نے آذان کے کلمات ادا کیے۔ لوگ امام کی امامت میں نماز کی ادائیگی کے لیے مسجدوں کا رخ کرنے لگے۔ آذان کے کلمات کی آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تو اس نے بھی اپنا آنسوؤں سے لبریز چہرہ صاف کیا اور وضو کرنے کے لیے اور نماز کی ادائیگی کے لیے ہسپتال کے ساتھ منسلک اس خاص جگہ کا رخ کیا جہاں ایک طرف پانی کے نلکے لگے تھے اور دوسری طرف تھوڑے فاصلے پر صفیں بچھی ہوئی تھیں۔
مرجان نے سیاہ کاٹن کا سادہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ لمبے گھنے کمر سے بھی ایک انچ نیچے بالوں کی ڈھیلی چوٹی کیے چوری دار پاجامے کے ساتھ سادہ سی انگوٹھے والی چپل میں اس کے دودحیہ پاؤں کی رنگت بے حد دلکش لگ رہی تھی۔ ہاتھ کسی بھی قسم کے آویزوں سے خالی تھے۔ چہرہ رونے کی وجہ سے سرخ اناڑی اور آنکھوں کی پتلیاں بھی قدرے سرخ ہو چکی تھیں۔ سیاہ شفون کے دوپٹے کو سٹالر کی طرح سر پر اچھے سے لپیٹے وہ قضو کرنے میں مشغول تھی۔ پھر اس نے وضو کیا۔ اور نماز کی ادائیگی کے لیے فرش پر بچھی صفوں کا رخ کیا۔ قبلہ رخ منہ کر کے نماز کی فرائض انجام دینے لگی۔ کچھ ہی فاصلے پر دو تین خواتین بھی نماز کی ادائیگی کے لیے وہاں موجود تھیں۔ پھر اس نے نماز پڑھنے کے بعد سلام پھیرا اور وہیں پاؤں سمیٹ کر بیٹھی رہی ۔ تسبیح کی ادائیگی کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا۔ وہ زاروقطار رونے لگی۔ پورے ہال میں اس کی ہچکیوں نے ایک الگ سماں باندھ دیا۔ وہ رو رہی تھی۔ اپنے رب سے اپنے باپ کی زندگی کے لیے صحت و تندرستی کے لیے التجاء کر رہی تھی۔ اس کے لہجے میں بہت درد تھا۔ وہ اس وقت سجدے میں گرگرا کر اپنے رب سے اپنے باپ کی لمبی عمر کی دعا مانگ رہی تھی۔ صفیں بھی اس کے آنسوؤں کی برسات میں خوب بھیگ رہی تھیں۔ وہ کافی دنوں سے سوئی نہیں تھی۔ مگر ابھی روتے روتے اپنے رب سے گفتگو کرتے کرتے پتہ نہیں کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب وہ اسی حالت میں سجدہ ریز سی آنکھیں بند کیے خوابوں کی نگری میں جا پہنچی تھی۔
                                        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مام پلیز! آپ مجھے اس زبردستی کی شادی پہ فورس نہ کریں۔”
وہ چڑ کر بولا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ثمن بیگم نے ابی کی فون کال سننے کے بعد اسے ٹی ۔ وی لاؤنج میں آنے کو بولا تو وہ بنا کوئی سوال کیے سرخ آنکھوں کے ساتھ اور بکھرے بالوں کے ساتھ سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا اور تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ٹی۔وی لاؤنج میں داخل ہوا اور ثمن بیگم کے بالکل سامنے صوفے پر براجمان ہو گیا۔ ثمن بیگم نے اسے افتخار صاحب کی حالت سے آگاہ کیا تو اس کے چہرے پر چند ناگوار شکنیں ابھریں۔ جو ثمن بیگم سے بالکل بھی پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ بحرحال انہوں نے اسے ابی کے گھر واپس آنے اور پھر سب کو ہسپتال لے جا کر نکاح ابھی اور اسی وقت ہونے کی خبر سنائی تو وہ تپ کر غصے سے بولا۔
“یہ نکاح تمہیں اب کرنا ہی پڑے گا۔”
وہ التجائی انداز میں فیصلہ سناتے ہوئے بولیں تو اس نے ایک قہرآلود بگاہ ماں پر ڈالی۔ وہ اتنی آسانی کے ساتھ کیسے کسی بھی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کر سکتا ہے۔ یہی بات اس کی انا کو ناگوار گزر رہی تھی اور وہ موقع پاتے ہی جبکہ اسے معلوم تھا کہ اس وقت ابی گھر پر نہیں تھے تو اس نے ماں کو اپنے حق میں کرنے کے لیے سپاٹ انداز میں نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔
“جب میرا دل راضی نہیں ہے تو آپ لوگ مجھے کیوں زبردستی اس بندھن میں باندھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ اکتا کر سوال کرنے پہ مجبور ہو گیا اس سے پہلے کہ ثمن اپنے لالڈلے کو کوئی جواب دیتیں ابی نے اپنے کانوں سے ثمن بیگم کی التجاء اور اپنے خاندان کے اکلوتے وارث کا ضد پر برقرار رہتے ہوئے اٹل انداز میں نکاح سے انکار اپنے کانوں سے سن لیا۔ جس پر ان کا دل ایک لمحے کے لیے دکھا۔ مگر اب اس وقت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ وہ افتخار صاحب کو نکاح کا وقت فائنل کر کے آئے تھے۔ اور اب بھی وہ خضر کی ہٹ دھرمی پر ذرا خائف سے ہو رہے تھے۔ لہذا وہ اندرونی چوکھٹ کو پار کرتے ہوئے اپنی بارعب شخصیت کے ساتھ ٹی۔ وی لاؤنج میں داخل ہوئے اور گرجدار آواز میں بولے۔
“ہمیں لگتا ہے اب ہماری اس گھر میں کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔”
وہ سنجیدہ انداز میں اپنے شانے پر چادر ٹھیک سے رکھتے ہپوئے بولے گویا طنز کا نشتر چلا رہے ہوں۔ ثمن بیگم ابی کی آمد پر فوراً سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ خضر نے بھی مڑ کر ابی کو اپنے قریب آتے دیکھا۔ تو چپ سادھے کھڑا ہو گیا جیسے فرمانبداری کے سارے ریکارڈز آج ہی توڑ ڈالے گا۔
“ہمیں تو لگا تھا کہ ثمن آپ اور خضر نکاح کے لیے اور میرے ساتھ ہسپتال جانے کے لیے میرے گھر آنے سے پہلے تیار بیٹھے ہوں گے۔ لیکن یہ کیا یہاں تو ابھی بھی وہی بوسیدہ بحث جاری ہے۔”
“وہ ابی! ایسی بات نہیں ہے ۔ خضر بچہ ہے جلد سمجھ جائے گا۔”
ثمن بیگم نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی تو ابی نے خضر کی طرف ایک نظر غلط ڈالی ۔ وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
“بچہ نہیں ہے اس خاندان کا اکلوتا وارث ہے۔ اتنا بڑا بزنس سنبھال رہا ہے اور اتنی سمجھ نہیں رکھتا کیا چیز کون سے وقت پہ صحیح ثابت ہو سکتی ہے۔”
اب کی طنز پر خضر ولید نے سر اٹھا کر اور نظر بھر کر ابی کی طرف دیکھا۔
“کیا یہ وہی ابی ہیں جو میرے ایک انکار پر ساری دنیا کو ٹھکڑا کر میری خوشی میں خوش ہوتے تھے۔ پتہ نہیں اس مرجان نے ایسے کون سے تعویز گھول کر پلا دیے ہیں ان کو جو اس کے علاوہ انہیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ “
وہ دل ہی دل میں بدگمانیوں کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ کر مرجان کو اسی بدگمانی کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
“بس ! بہت ہو گیا ہے۔ اتنا وقت نہیں ہے جو میں ابھی بھی اسی فضول کی بحث میں اپنا وقت ضائع کروں ۔ ثمن آپ خضر کو لے کر دس منٹ میں پورچ میں پہنچیں۔ میں گاڑی میں آپ دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔ اور برائے مہربانی آنے سے پہلے اپنے اسلاڈلے کا حلیہ تھوڑا صحیح کروا کے لائیے گا۔ آج ولید بیگ کے اکلوتے بیٹے کا نکاح ہے کوئی معمولی بات تو نہیں ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ تلخ انداز میں تنبیہہ کرتے ہوئے انہیں خضر کے حلیے کو ٹھیک کرنے کی نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پوتے کے نکاح کی خوشی کو بھی اپنے لہجے سے چھلکا رہے تھے۔ آخر یہ بھی سچ تھا کہ جلدی میں اور حالات کی سنگینی کے تحت یہ نکاح ایسے سادگی سے ہو رہا تھا۔ مگر جو بھی تھا اس سادگی میں ہونے والے نکاح میں بھی کہیں نہ کہیں ان کی خوشی ضرور تھی۔
ابی نے چادر سنبھالی اور اپنا موبائیل فون اٹھایا اور دھیمے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے وہ باہر آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ خضر نے غصیلی نگاہ ماں پر ڈالی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ابی کی نرمی میں بھی سختی کا عنصر نمایاں نظر آ رہا تھا۔ اور اس سے پہلے کہ ابی کا غصہ طیش کی حد تک پہنچتا اس نے خاموشی اور بےدلی کے ساتھ ان کے فیصلے کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ثمن بیگم کو بھی پتہ تھا کہ خضر اپنی ضد کا پکا ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ ابی کے لہجے کی تاثیر اور ان کے ادب میں خضر اب کوئی بحث کیے بغیر چپ چاپ اس فیصلے کو تسلیم کر لے گا۔ اسی لیے وہ اس کے پیچھے روم میں نہیں گئی تھیں۔ اور وہیں کھڑی اس کا انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑے ہی توقف کے بعد وہ سفید قمیض شلوار میں ملبوس بالوں کو جیل کے ساتھ سیٹ کیے تیز خوشبو لگائے انتہائی تسلی کے ساتھ اور دھیمے تاثرات چہرے پر سجائے سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔ سفید اور سرخی مائل رنگت خوبصورت بادامی آنکھیں جن پر سیاہ پلکوں کا ڈیرا تھا۔ ہلکی داڑھی کا خوبصورت خط کیے وہ کسی سلطنت کا شہزادہ لگ رہا تھا۔ ماں نے اس کے ہر ہر قدم پہ اس کی کئی بلائیں لیں۔ وہ قریب آیا تو ماں نے اس کا ماتھا چوما اور اسے ڈھیڑوں دعائیں دیں۔ وہ سپاٹ انداز میں سنجیدگی چہرے پر بکھیرے بالکل کسی بھی تاثر کے کھڑا تھا۔ جیسے کوئی روبوٹ مالک کے حکم پر فوری عمل کرنے کے لیے حاضر ہو جاتا ہے۔
“اب چلیں مام! اس سے پہلے کے ابی کا قہر ہم پہ نازل ہو۔۔۔۔۔۔۔!”
اس نے ہاتھ سے انہیں باہر کی طرف چلنے کا اشارہ کیا اور اکتاہٹ سے بولا۔ تو ثمن بیگم بنا کچھ بولے اس کے ساتھ ہو لیں۔ وہ گاڑی کے پاس آئے ڈرائیور نے فوراً سے پیش قدمی کی اور دونوں کے لیے گاڑی کے دروازے کھول کر کھڑا ہو گیا۔ ابی فرنٹ سیٹ پر براجمان تھے۔ انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ایک نظر خضر کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اپنے لاڈلے کی بلائیں لیں۔ وہ سنجیدہ انداز میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ابی اس کے انداز اور نخروں پر زیرِ لب مسکرائے انہیں پتہ تھا وہ یہ ساری خفگی اپنے ابی کو دکھا رہا ہے۔ اور اس کی یہ خفگی کسی حد تک ٹھیک بھی تھی۔ جب بچوں کی من پسند چیزیں دنیا والوں سے ٹکرا کر ان کی آغوش میں رکھنے کی عادت ڈالنے والے ماں باپ اچانک سے ان کی اجازت کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کر دیں تو بچوں کی خفگی جائز ہوتی ہے۔ یہ تو خضر تھا جو صرف نارازگی دکھا رہا تھا کیونکہ وہ ادب کے دائروں سے رشتوں کی اہمیت سے واقف تھا۔ لیکن اگر خضر کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو شاید اتنی آسانی کے ساتھ کبھی بھی نہ مانتا۔گاڑی پورچ سے باہر آ چکی تھی۔ ڈرائیور سڑک پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔ کیونکہ ابی نے اس کو جلدی سے ہسپتال پہنچنے کے آرڈرز جاری کیے تھے۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ ابی کے ساتھ ساتھ ثمن بیگم اور خضر نے بھی سارا راستہ خاموشی کا قفل اپنے لبوں پہ لگا رکھا تھا۔
                                ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سبز گھاس پر ننگے پاؤں پھیلائے وہ گھاس کے اس خوبصورت فرش پر پر مسرت انداز میں بیٹھی تھی۔ آنکھوں میں کاجل کی گہری دھار لگائے بالکل سادگی میں بھی وہ اپسراء لگ رہی تھی۔ گہرے سیاہ لمبے گھنے بال اس کے شانوں پر لہک رہے تھے اور گھاس کے اس فرش کو چھو بھی رہے تھے۔ کچھ لٹیں اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔ کبھی آنکھوں کا بوسہ لیتیں تو کبھی رخساروں کے ساتھ چھیڑ چھیڑ کرتیں۔
عنابی رنگ اس کے لب و رخسار کو مزید رونق بخش رہا تھا۔ ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں اور سرخ مہندی سے سجے ہاتھ اس کے حسن  میں اضافہ کرنے کے کافی تھے۔ گاجری رنگ کا سادہ پلین گھیرے دار فراک جس کے بارڈر پر ہلکا ہلکا گوٹے کی سنہری تار کے ساتھ کام ہوا تھا ۔ کچھ پھول بڑی نفاست کے ساتھ اس فراک کو دلکش بنا رہے تھے۔ چوری دار پاجامہ جس کی بے تحاشا چوڑیاں کسی ماہر درزی کی مہارت کی عکاسی کر رہی تھیں ۔ دائیں شانے پر ٹکا سادہ نیٹ کا دوپٹہ جس کے بارڈر پر چاروں طرف گولڈن کنگری ہوئی تھی۔ لباس کی دلکشی نے اس کی شخصیت کو مزید دلکش بنا دیا تھا۔ وہ بالوں کی بکھری لٹوں کو اپنے کان کے پیچھے کرنے ہی لگی تھی کہ کسی کے آہنی ہاتھ نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا اور مخمور لہجے میں بولا ۔
“رہنے دو اپنے بالوں کو لب و رخسار کے ساتھ سرگوشی کرنے دو۔”
لہجے کی خماریت اس کے دل کو چھوئی تو سارے بدن مین ایک سنسناہٹ سی بکھری تو اس کے رخسار بلش کرنے لگے شنگرفی لب دھیمے انداز میں مسکرائے اور اس نے نظر بچا کر پلکیں جھکا لیں۔ اس کی یہ ادا اس کے پہلو میں بیٹھے شخص کے دل پر بجلی کی طرح کوندی اس کی خمار آلود آنکھوں میں بے تحاشا پیار کا سمندر امڈ آیا اس کا دل چاہا اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لے اور بھرپور چاہت کی برسات میں اس کا سارا بدن بھگو دے ۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی سادہ پسند شریکِ حیات کبھی بھی اس طرح کھلے آسمان تلے اس کی کسی بھی چاہت کا جواب چاہت سے نہ دے پائے گی۔ لہذا اس نے اپنے جذبات کے بہتے سمندر پر قابو کرنا ہی بہتر سمجھا۔ پھر وہ اس کے چہرے کے قریب ہوا اس کی تھوڑی کے نیچے اپنی انگلی رکھی اور اس کے چہرے کو تھوڑا سا اوپر کو اٹھایا اس کے شرم کے مارے بلش کرتے چہرے کا دیدار کیا۔ اور محبت سے لبریز لہجے میں بولا۔
میری کل کائنات ہو تم میری جان۔۔۔۔۔۔!!!”
اس کی چاہت اس کے انداز سے واضح چھلک رہی تھی۔ وہ شرما رہی تھی اس کی گھنی پلکیں مسلسل کانپ رہی تھیں۔ بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ خوبرو شخصیت کا مالک تھا ۔ اگر وہ خوبصورت نقوش کی مالک تھی۔ تو اس کے پہلو میں بیٹھا وہ شخص بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ دونوں ہی دلکش اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اس کے کان کی لو کو چھوتے ہوئے اس کے چہرے کے قریب اپنی گرم سانسوں کی مہک اس کے اندر سموئے اس سے سرگوشی کر رہا تھا اور وہ بنا کچھ بھی بولے اپنے بے قابو ہوتے دل کے ساتھ اس کی ہر سرگوشی پہ صرف مسکرا رہی تھی۔ پھر فرطِ جذبات سے لبریز خود پر قابو کھتے ہوئے اس نے اس کی گردن میں اپنا ہاتھ حائل کیا اور اسے مزید قپنے قریب کرتے ہوئے اس کے شنگرفی لبوں کو اپنے عنابی ہونٹوں کے حصار میں قید کرتے ہوئے ان کے جام پینے لگا ۔ اس کی تو جیسے سانسیں ہی اچھل کود کرنے لگیں وہ اس وقت اس کے دل کے سارے سرگم باآسانی سن رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے بنا کوئی جنبش کیے اس کے آہنی بازوؤں کو زور سے تھامے بیٹھی تھی۔ وہ کچھ کچھ توقف کے بعد اپنی آنکھیں وا کرتا اس کے چہرے کی طمانیت کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔
                                         ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مرجان ! اٹھو۔۔۔۔۔۔۔!!! تم یہاں پہ سوئی ہو اور وہاں سب تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔”
رمشا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے پورے ہسپتال کا چپہ چپہ اسے ڈھونڈنے میں صرف کر چکی تھی اب کہیں اس یاد آیا تو وہ فوراً اس طرف لپکی اسے اس طرح زمین پر بے حس و حرکت خود کو سمیٹے فرش پر سوتے دیکھ کر اس نے ایک لمبا سانس کھینچا اور شکر ادا کیا اور جلدی سے چلتے ہوئے اس کے قریب آئی اور اب اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر اسے جگا رہی تھی۔ مرجان جو روتے روتے پتہ نہیں کب نیند کی آگوش میں چلی گئی اب اچانک سے رمشا کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑائی تو وہ ہڑبڑا کر نیند کی تتلیوں کو پیچھے دکھیل کر ہوش کی دنیا میں قدم رکھنے لگی اور فوراً سے بولی۔
“کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔؟ ابا تو ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ فکرمندی سے پوچھ رہی تھی۔ جس پر رمشا نے اس کے ماتھے پر بکھرے پانی کے قطرے صاف کیے اور سرعت سے بولی۔
“ہاں ! انکل بالکل ٹھیک ہیں۔ وہ نکاح خواں آ گیا ہے اور سب لوگ بھی وہاں تمہارا پوشھ رہے ہیں تو علی اعظم انکل نے مجھے بولا میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر آؤں۔ “
اس نے اسے تفصیل بتائی جو رمشا کی نظر میں صرف بات تھی۔ جبکہ مرجان پر وہ سارے الفاظ کسی بجلی کی طرح گر رہے تھے۔ اس نے نظریں جھکا لیں ۔ اور خاموشی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی رمشا بھی اس کے اس انداز پر پریشان تھی۔ وہ کچھ بھی نہیں بولی تھی بلکہ چپ چاپ وقت اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے وہ اس کے قدموں کے ساتھ قدم ملاتے چلنے لگی۔ اس کے بے جان قدموں میں زندگی کی کوئی رمق، اس کے شاداب چہرے پر فکر کے بادل اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ بیزاریت کے آثار واضح نظر آ رہے تھے۔ مگر اب اس نے قسمت کے فیصلے کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ رمشا کا دل اس کی فکر میں خون کے آنسو رو رہا تھا اور اس کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ہونے کی دعا بھی کر رہا تھا۔
                                        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
؎   شبِ وحشت کی عادت ہو گئی ہے
     مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
    یہ کیسالمس ہے جس کے ہنر سے
مکمل سب عبادت ہو گئی ہے
سوا ہے شورِ دل جہاں سے
مگر اب اس سے نسبت ہو گئی ہے
کوئی دن کے لیے دیوانگی بھی
میرے دل کو غنیمت ہو گئی ہے
بہت بے حال رہتے تھے مگر اب
ہمیں ہجرت کی عادت ہو گئی ہے
گلاب آثار رستہ منتظر ہے
کہ موسم کی عنایت ہو گئی ہے
زمین سے آسماں تک روشنی ہے
مہرباں ہم پہ فطرت ہو گئی ہے
“مرجان بنتِ افتخار آپ کا نکاح خضر بیگ ولد نوید بیگ کے ساتھ بعوض حق مہر اسلامی سلہ رائج الوقت دس لاکھ روپے کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ سر جھکائے نیٹ کا دوپٹہ جو نکاح کی رسم نبھانے کے لیے ثمن بیگم اپنے ساتھ لے کر آئیں تھیں حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے سادگی کا بھرپور خیال رکھا تھا۔ وہ اس کے سر پر پھیلایا گیا تھا۔ اس کا سارا چہرہ نیٹ کے دوپٹے میں چھپ چکا تھا۔ افتخار صاھب کی طبیعت بہت ناساز تھی اور نکاح کی خواہش کی تکمیل کے لیے ابی کے کہنے پر ڈاکٹر صاحب نے ان کے لیے سپیشل روم تیار کروایا تھا کیونکہ افتخار صاحب نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ ان کی مرجان کا نکاح ان کی آنکھوں کے سامنے کیا جائے۔ وہ بیڈ پر لیٹے نکاح خواں کی آواز سن رہے تھے۔ منہ پر آکسیجن ماسک لگائے وہ نظریں مرجان کے وجود پہ ٹکائے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ خضر کو اس سب سے بہت کوفت ہو رہی تھی۔ وہ سخت دل نہیں تھا مگر اس کی فطرت میں یہ چیز بھی شامل تھی کہ جن لوگوں کے ساتھ اس کی کبھی کوئی بات چیت یا ملاقات نہ ہوئی ہو وہ ان لوگوں کے درمیان خود کو ان کمفرٹیبل محسوس کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ بیزاریت کی حد کو چھو رہا تھا لیکن ابی کی بات کا پاس رکھتے ہوئے وہ خاموش بیٹھا تھا۔ نکاح خوان کے ساتھ ایک وکیل اور ابی کی طرف سے چار گواہ بھی موجود تھے۔ نکاح خواں نے پہلے خضر سے قبولِ نکاح کی تمام رسومات ادا کر کے اس کے دستخط لے لیے تھے اور اب علی اعظم کے ساتھ ابی بھی نکاح خواں کے ساتھ مرجان کے پاس بیٹھے اس سے اس کی شرعی رائے لینے کے لیے قبول نکاح کے منتظر تھے۔
وہ جو سر جھکائے بناء آواز نکالے تواتر سے آنسوبہانے میں مشغول تھی۔ رمشا نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھا تو نکاح خواں کی آواز اس کی سماعتوں سے ایک بار پھر ٹکڑائی ۔
“مرجان بنتِ افتخار آپ کا نکاں خضر بیگ ولد نوید بیگ کے ساتھ بعوض حق مہر اسلامی سکہ رائج الوقت دس لاکھ روپے کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
رمشا نے اسے اس کے دکھ کی دنیا سے جگا کر اس وقت پوچھے گئے سوال پر ساکت خاموشی برقرار رکھنے پر کئی نظروں کے اٹھنے والے سوالوں کے جواب تلاشنے سے پہلے اس کی پشت کو ایک بار پھر زور سے تھپتھپایا تو وہ مری ہوئی آواز کے ساتھ ہچکیوں کے بندھ کا سماں باندھے رندھے ہوئے لہجے کے ساتھ اعتراف کر گئی ۔
“جی! قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
اس کے قبول نکاح کے بعد خضر نے قہر آلود نگاہ ثمن بیگم کے پہلو میں نیٹ کے دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپائے سیاہ رنگ میں ملبوس اس وجود پر ڈالی جو کسی موم کی گڑیا کی طرح سہم کر بیٹھی تھی۔ ایک بار پھر نکاح خواں نے نکاح کی قبولیت کا سوال کیا تو وہ بناء کسی توقف کے اعتراف کر گئی۔ ثمن بیگم نے فوراً سے اس کا ماتھا چوما۔ ابی نے دستِ شفقت اس کے سر پر رکھا اور اسے صدا سہاگن رہنے کی دعائیں دیں ۔ علی اعظم کی آنکھوں سے آنسو چھلکے تو ابی نے انہیں اپنے بازوؤں کے حصار میں لیا اور پھر دونوں چلتے ہوئے افتخار صاحب کے قرین آئے اور انہیں بیٹی کے نکاح کی مبارکباد دی۔ افتخار صاحب کے چہرے پر طمانیت اور سکون بکھرا انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ پھر قدرے ہمت جمع کرتے ہوئے انہوں نے ہاتھ کو ہولے سے اٹھایا اور خضر کو اپنے پاس بلانے کا اشارہ کیا۔ ابی فوراً سے سمجھ گئے۔ انہوں نے خضر کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ لا کر کھڑا کیا ۔ پھر رمشا مرجان کا ہاتھ تھامے اسے افتخار صاحب کے قریب لے کر آئی۔ وہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کے ہم پلہ کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کے قریب مگر ایک دوسرے سے انجان ۔۔۔۔۔۔۔! پھر افتخار صاھب نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر بول نہ پائے علی اعظم نے ان کے چہرے سے آکسیجن ماسک ہٹایا تو دھیمے سے مسکرائے مرجان کا ہاتھ پکڑا اور لبوں کے قریب کر کے بوسہ دیا وہ ابھی بھی اپنا چہرہ دوپٹے کی اوٹ میں چھپائے ہوئے تھی۔ پھر انہوں نے ابی کو اشارہ کیا اور خضر کا ہاتھ پکڑ کر مرجان کا موم کی گڑیا کی طرح نظر آنے والا نازک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما کر بولے۔
“یہ میری مرجان ہے۔۔۔۔۔۔! یہ میری موم کی گڑیا ہے۔۔۔۔۔۔۔! اسے کبھی تنہاء نہ چھوڑنا خضر۔۔۔۔۔! آج سے میری مرجان تمہارے حوالے۔۔۔۔۔۔۔۔! اس کی حفاظت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے کے ساتھ الفاظ کو جوڑکر اپنے دل کے آخری کلمات ادا کرتے ہوئے اسے اپنی موم کی گڑیا تھما کر اس سے ساری زندگی نبھا کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا وعدہ لے رہے تھے۔ اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی سر اثبات میں ہلا گیا ۔ معلوم نہیں ان کے لہجے کی تاثیر اس کے دل میں کسی چبھن کی طرح لگی اور وہ ان کی حالت پہ رحم کھاتے ہوئے ان کی گڑیا کو اپنی سلطنت کی شہزادی بنا کر رکھنے کا وعدہ کر رہا تھا۔ مرجان اپنے باپ کی حالت پر زاروقطار آنسوبہانے میں مشغول تھی۔ سب لوگ ان کے بالکل پاس کھڑے تھے۔ ثمن بیگم اپنے لاڈلے کے نکاح کی رسم ادا ہونے پر بہت خوش تھیں ۔ لیکن اگلے ہی لمحے افتخار صاحب نے ابی کی نظروں سے نظریں ملائیں اور تشکرانہ انداز میں دو موتی چھلکائے اور بار بار کچھ لفظ لبوں سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آخرکار وہ بول ہی گئے۔
“میری گڑیا آپ کے حوالے بیگ صاحب۔۔۔۔۔۔۔! اسکا خیال رکھیے گا۔”
اس سے پہلے کہ ابی کچھ بولتے افتخار صاحب نے لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے۔ ابی نے فوراً سے علی اعظم سے بولا کہ وہ ڈاکٹر کو بلا کر لائے خضر بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ مرجان نے دوپٹہ چہرے سے کھینچ کر دور اتار پھینکا ثمن بیگم نے اس کی حالت دیکھی تو رنجیدہ ہو گئی۔ وہ چیخنے لگی۔
“بابا! میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی ۔”
آنکھوں سے موتیوں کی لڑیاں جاری تھیں۔ افتخار صاحب نے ایک اور لمبا سانس کھینچا اور عزرائیل حکمِ خداوندی سے انہیں اس جہانِ فانی سے لے کر چلا گیا۔ مرجان نے کھلی آنکھیں اور بے جان وجود میں بے حس و حرکت اپنے باپ کو دیکھا تو زور زور سے چیخنے لگی۔ وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔
“ابا۔۔۔۔۔! میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر۔۔۔۔۔۔!”
وہ ان کے سینے پہ سر رکھے رو رہی تھی۔ خضر علی اعظم اور ڈاکٹر صاحب اس کے چیخنے کی زورزور سے چلانے کی آوازیں سن کر سرعت سے بھاگے بھاگے آئے لیکن شاید ان کے آنے میں دیر ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ثمن بیگم اور رمشا سے ریکویسٹ کی کہ وہ مرجان کو سنبھالیں اور ایک آخری بار انہیں اپنی کوشش کرنے دیں ۔ رمشا سے تو مرجان بالکل بھی سنبھل نہیں رہی تھی۔ خضر صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب کی کوششوں پہ نظریں جمائے کھڑا تھا اس نے ایک بار بھی مرجان کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ ابی نے ڈاکٹر صاحب کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا تو مایوسی کے تاثرات ان سے چھپ نہ سکے وہ ان کے سینے پہ دونوں ہاتھ رکھے زور زور سے پمپ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی۔ پھر وہ افتخار صاحب کے منہ سے آکسیجن ماسک اتارے ان کے چہرے کو چادر سے ڈھکتے ہوئے ابی کے پاس آئے اور نظریں جھکا کر بولے۔
“بیگ صاحب ! خدا کی یہی مرضی تھی۔ خدا آپ کو اور آپ کے خاندان والوں کو صبر عطا کرے۔”
ڈاکٹر صاحب کے الفاظ مرجان کے وجود پر بجلی کی طرح گرے وہ رمشا کے بازوؤں کے حصار سے خود کو چھڑاتے ہوئے بیڈ کی طرف لپکی اور زور زور سے چیختے چلاتے ہوئے ابا ابا پکارنے لگی۔ ثمن بیگم اس کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں۔ مگر اس کاغم بہت گہرا تھا۔ اسی اثناء میں وہ دھڑام سے زمین پر گر گئی اور بے ہوش ہو گئی۔ ثمن بیگم کے پکارنے پر ڈاکٹر صاحب فوراً سے اس کی طرف ہو لیے۔
“مرجان! مرجان۔۔۔۔۔۔۔!!!”
رمشا روتے روتے اس کے چہرے کو تھپتھپا رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔
                                           ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button