رومینٹک ناول

Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 5

 

خمارِ جاں

از

حناء شاہد

قسط نمبر 5۔۔۔۔۔۔!!!
چودھویں رات کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان پر جلوۂ افروز تھا۔ ستارے چاند کی چودھویں کو مسرت سے دیکھ رہے تھے اور آسمان پر ہر طرف رونق تھی۔ جہاں آسمان اندھیرے میں بھی جگمگا رہا تھا وہیں زمین پر کوئی بے حد اداس تھا ۔
گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔ دونوں سوئیاں آپس میں ٹکڑائیں تو گھنٹے کی آواز پرسکوت ماحول میں زور سے گرجی۔ مرجان جو بستر پر لیٹی تھی آنکھیں موندے، مگر نیند اس کی آنکھوں سے بہت دور کہیں اوجھل سی تھی۔ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے کروٹ پہ کروٹ بدل رہی تھی۔ اس کا دل بہت بے چین تھا۔ آخر کار وہ بلینکٹ پیچھے کرتے ہوئے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا رمشا جو آج اپنے گھر نہیں گئی تھی کیونکہ افتخار صاحب کی حالت شام سے ہی خراب تھی ۔ سو وہ ادھر ہی مرجان کے پاس رک گئی کیونکہ اس سے مرجان کی پریشانی نہیں دیکھی جا رہی تھی۔ وہ دوسری طرف کروٹ کیے دنیا سے بے خبر گہری نیند میں تھی۔ مرجان نے بنا کوئی آواز نکالے وہاں سے اٹھ کر باہر جانا چاہا ۔ لیکن شاید وہ اس بات سے بے خبر تھی جو لوگ آپ کے چہرے کو اداس نہیں دیکھ سکتے جو لوگ آپ کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اپنی زندگی تک کو اہمیت نہیں دیتے ہم کبھی بھی ان سے چھپ کر آنسو نہیں بہا سکتے ۔ رمشا اسے دکھانے کے لیے بے خبر سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔ مگر حقیقت تو یہ تھی کہ مرجان کے بار بار کروٹ بدلنے پر وہ اس کی بے چینی سے مکمل با خبر تھی۔
مرجان دھیمے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔ سیڑھیوں سے نیچے اتری بنا آواز نکالے اور لاؤنج میں سے گزرتے ہوئے بیرونی چوکھٹ کو پار کیا۔ فضاء کافی پرسکون تھی۔ چاند مسکرا رہا تھا ۔ ستارے جگمگا رہے تھے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی۔ پتے ہوا کے دوش پہ جھوم رہے تھے۔ وہ کھلی فضاء میں لمبے لمبے سانس اپنے اندر کھینچنے لگی۔ اسی اثناء میں کوئی ہولے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے اسے اپنے قریب آتا محسوس ہوا ۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ رمشا تھی۔ پھر مرجان نے اسے دیکھتے ہی اپنی نظریں جھکا لیں۔
“کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے مرجان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ نظریں گھاس پر جمائے اس کے سوال پر کوئی جواب ہی نہ دے پائی۔
“رنگ کیوں اڑے ہوئے ہیں تمہارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ سبز گھاس پر ننگے پاؤں کھڑی بنا دوپٹے کے لمبے لمبے سانس اپنے اندر کھینچ رہی تھی۔ جب رمشا نے اس کے یوں اچانک سے اٹھ کر روم سے باہر آنے پر اس کے پیچھے آنے کی بجائے وال ونڈو میں سے اسے لان میں کھڑا دیکھا تو اسے اس کی حالت پر کچھ تشویش ہوئی تو وہ فوراً سے بھاگی بھاگی نیچے آئی اور جلدی سے لان میں اس کے پیچھے پہنچ گئی۔ وہ اسے اس حال میں دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔ بنا دوپٹے کے ننگے سر اور ننگے پاؤں ، بالوں کی ڈھیلی چوٹی کیے اور کئی لٹیں چوٹی میں سے باہر نکل کر اس کے رخساروں کو چھو رہی تھیں۔ چہرہ بے رنگ اور آنکھیں رونے کے باعث قدرے سرخ اور سوجھی ہوئی تھیں۔ رمشا کے سوال پر اس نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے روہانسی آواز میں بولی۔ جیسے آنسوؤں کے کئی گولے اپنے حلق میں اٹکائے وہ گہرے درد میں مبتلا ہو۔
“پتہ نہیں! میرا دل بہت گھبرا رہا ہے رمشا۔۔۔۔۔۔! مجھے ابا کی بہت فکر ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
آنسوؤں کی مالا ٹوٹ کر اس کے رخساروں پہ بکھری تو اس کے سرخ گال مزید سرخ ہو گئے۔ رمشا کو اس کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس نے فوراً سے اسے گلے سے لگا لیا۔ اور تسلی دیتے ہوئے بولی۔
“کیوں فکر کر رہی ہو۔ انکل ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
حقیقت سے تو وہ بھی آشنا تھی مگر سوائے تسلی اور دلاسے کے اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔
                             ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گھر آیا تو ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔ وہ ٹی وی لاؤنج میں سے گزرتا ہوا سیدھا اپنے روم میں چلا گیا ۔ ابی کے روم کا ڈور اوپن تھا۔ اور لائٹ بھی جل رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ابی کو اس کے دیر سے گھر آنے کی خبر ہوتی وہ فوراً سے اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن جیسے ہی اس نے روم کا ڈور کھولا تو سامنے جو منظر تھا اس منظر نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ ابی سامنے سیٹر صوفے پر بیٹھے تھے اور ثمن بیگم ان کے بالکل قریب بیٹھی تھیں۔ وہ دونوں ہی پریشان کن انداز میں اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ خضر نے روم میں قدم رکھا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ بیگ سائیڈ میز پر رکھا۔ اور خجل نظروں کے ساتھ ابی کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے قریب آیا۔ ثمن بیگم نے اس کو دیکھتے ہی نظریں چرا لیں۔ وہ سمجھا شاید ابی اور ماما اس کے دیر سے گھر آنے پر خفا ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ وہ نظریں جھکائے ، گھٹنے زمین پہ ٹکائے ابی کے قریب زمین پر بیٹھ گیا۔ اور نظریں چراتے ہوئے بولا۔
“وہ ابی! آفس میں آج کام زیادہ تھا اس لیے مجھے دیر ہو گئی ہے۔”
یہ کہتے ہوئے اس نے نظر اٹھا کر ثمن بیگم کی طرف دیکھا تو وہ اسے بالکل اگنور کرنے کے انداز میں صوفے کی بیک سے کمر ٹکائے نگاہیں فرش پر مرکوز کیے بیٹھی تھیں۔
“اٹس اوکے۔۔۔۔۔۔۔! “
ابی نے مختصر سا جواب دیا تو اس نے اچانک نے ابی کی طرف دیکھا اور دھیمے سے مسکرایا ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے کہی گئی بات نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے۔ اور وہ حیران و ششدر رہ گیا۔
“افتخار صاحب کی طبیعت بالکل بھی ٹھیک نہیں ۔ میں ابھی ہسپتال جا رہا ہوں ۔ وہ آئی ۔ سی ۔ یو میں ہیں۔ انہیں بالکل بھی ہوش نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے جمعے کو ہونے والا نکاح ہمیں کسی بھی وقت کرنا پڑے۔”
ابی کے سنجیدہ لب و لہجے نے اس کو کسی بھی قسم کی بچگانہ حرکت کرنے سے جہاں باز رکھا وہیں وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموشی کا قفل سجائے بنا کچھ بھی بولے چہرے پر سجی مسکراہٹ غائب کرتے ہوئے اپنا سر ان کے فیصلے کے آگے تسلیمِ خم کیے نظریں فرش پر گاڑے ان کی بات کو بغور سننے لگا۔
“میں ابھی اور اسی وقت ہسپتال جا رہا ہوں۔ میرے جانے کے بعد اپنی ماں کے ساتھ اس معاملے میں بحث کرنے سے گریز کیجئیے گا اور اس فیصلے کو میرا آخری فیصلہ سمجھ کر بناء کوئی جواز ڈھونڈے قبول کرنے میں ہی عافیت سمجھئیے گا۔ “
ابی کے لہجے میں کچھ درشتی ابھری جسے وہ بخوبی بھانپ گیا تھا۔ خضر سر جھکائے غضب کی کئی دھاریں آنکھوں میں سجائے خاموش ہو گیا۔ ابی صوفے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ شانے پر سفید چادر جو ہر وقت ان کے ایک شانے پر رکھی ہوتی تھی اسے صحیح طرح سے شانے پر رکھے وہ اپنا حتمی فیصلہ اسے سناتے ہوئے اب جانے ہی لگے تھے کہ کچھ یاد آنے پر وہ ایکدم رک سے گئے اور بارعب آواز میں بولے۔
“لائیر سے میری بات ہو چکی ہے اس نے نکاح کے سارے انتظامات کر لیے ہیں۔ وہ بس میری کال کا منتظر ہے۔ خضر صاحب آپ سے بس ایک گزارش ہے اپنی ماں کے ساتھ کوئی بحث نہ کیجئیے گا اور نکاح کے وقت اس خاندان کی عزت اور ہماری آن کا خیال رکھتے ہوئے وقت پہ پہنچ جائیے گا۔”
ابی اپنا حکم صادر کرتے ہوئے رعب و دبدبے کے ساتھ اب جا چکے تھے۔ ثمن بیگم نے بیٹے کی چہرے پر چھائی اداسی کو اچھے سے دیکھا تھا۔ مگر کچھ بھی بول نہ پائیں۔ کیونکہ وہ بخوبی واقف تھیں کہ خضر کے حق میں کیا جانے والا فیصلہ درست ہی ثابت ہو گا۔ وہ بھی بنا کچھ بولے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ ابی ڈرائیور کو اشارہ کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ چوکیدار نے راہداری میں سے گزرتے ہوئے فوراً سے گیٹ کھولا اور ڈرائیور نے تیزی کے ساتھ گاڑی کو راہداری میں سے گزارتے ہوئے گیٹ کو پار کیا۔ وہ افتخار صاحب کی حالت کی خبر سن کر بے حد پریشان ہو گئے تھے۔ رات بھی کافی ہو چکی تھی۔ سڑکیں کافی سنسان تھیں۔ لہذا آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد وہ ہارٹ کمپلیکس جو شہر کا سب سے مہنگا ہسپتال تھا اس کے بیرونی گیٹ کے باہر موجود تھے۔ ڈرائیور نے گاڑی پارکنگ میں پارک کی اور فوراً سے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر باہر آیا اور سرعت کے ساتھ ابی کی سائیڈ کا ڈور کھولا ابی اپنی بارعب شخصیت کے ساتھ دھیمے قدموں میں تیزی بھرتے ہوئے ہسپتال کا اندرونی دروازہ پار کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ ہسپتال میں اس وقت قدرے خاموشی تھی۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ سامنے ہی علی اعظم پریشان کن انداز میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہے تھے۔ قمیض شلوار میں ملبوس وہ شخص تقریباً پچاس سال کی عمر کا ہو گا۔ سفید داڑھی کے ساتھ سادگی اور عاجزی کی بے مثال شخصیت کا مالک انسان اس وقت اپنے دوست کی حالت پر کافی پریشان تھا۔ چند ہی فاصلے پر مرجان بیٹھی تھی۔ سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس سر کو چادر سے ڈھانپے۔ سرخی مائل آنکھوں میں بیش قیمت آنسوؤں کے موتی سجائے وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور فکرمندی کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے۔ وہ مردہ جسم و جان کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ابی کو اس کی حالت دیکھ کر قدرے تکلیف ہوئی۔ رمشا اس کے قریب بیٹھی بار بار ٹشو پیپر کے ساتھ اس کی آنکھوں سے گرتے موتیوں کو صاف کرتی اور بار بار اس کے کان میں کچھ سرگوشی بھی کر رہی تھی۔ ابی کو صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ اسے تسلی دے رہی تھی۔ لیکن یہ بات تو سب کو ہی معلوم تھی کہ ایک بیٹی کا حال اس وقت کیا ہوتا ہو گا جب اس کے سامنے اس کا باپ آئی۔ سی ۔ یو میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہو اور وہ سوائے خدا کی ذات کے علاوہ کسی پہ بھی توکل نہ کر سکے۔ ابی جلدی سے اس کے پاس آئے اور اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا۔ مگر وہ تو ہر چیز سے بیگانہ ہوئے بیٹھی تھی۔ آنکھیں مسلسل موتی چھلکا رہی تھیں۔ وہ اس کی حالت کو بخوبی سمجھتے ہوئے علی اعظم سے افتخار صاحب سے متعلق استفسار کرنے لگے۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر وجاہت جن کا شمار بیسٹ کارڈیالوجسٹ میں ہوتا تھا۔ وہ اسٹیتھوسکوپی ہاتھ میں تھامے آئی۔ سی ۔ یو سے باہر آئے۔ اور سوالیہ انداز میں پوچھا۔
“علی صاحب ! کیا بیگ صاحب تشریف لے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
“جی ہاں ! ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔! یہ ہیں بیگ صاحب۔۔۔۔۔۔۔!!!”
ابی جنہیں سب بیگ صاحب کے نام سے جانتے تھے۔ ان کے خاندان کا ایک نام تھا پورے شہر میں۔ گھر کے افراد کے علاوہ سب رشتےدار اور دوست احباب انہیں بیگ صاحب ہی کہتے تھے۔ ڈاکٹر وجاہت سے پریشان کن انداز کے ساتھ ان کی آمد کا پوچھا تو ابی فوراً سے آگے بڑھے اور استفہامیہ انداز میں بولے۔
“اب کیسی طبیعت ہے افتخار صاحب کی۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ابی کے لہجے میں پریشانی اور فکرمندی واضح جھلک رہی تھی۔ جس پر ڈاکٹر وجاہت نے تشویش کے ساتھ انہیں بتایا۔
“جی پیشنٹ کی حالت ابھی بھی خطرے میں ہے۔ ان کا ہارٹ بہت سلو ورک کر رہا ہے۔ ہم اپنی طرف سے بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔ مگر ان کی حالت بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے بس آپ سب لوگ ان کے لیے دعا کریں۔ “
ڈاکٹر وجاہت کی بات سن کر مرجان تو جیسے مرجھا سی گئی۔ وہ جو ڈاکٹر وجاہت کے آئی۔ سی ۔ یو سے باہر آنے پر فوراً سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اور متوجہ ہو کر ان کی بات سن رہی تھی۔ مگر اب ان کے لہجے کی ناامیدی دیکھ کر وہ بھی مایوس ہو گئی تھی۔ اور بے جان جسم کا بوجھ برداشت نہ کرتے ہوئے رمشا کے ہاتھ کا سہارا لیتے ہوئے کرسی پر نڈھال سی ہو گئی۔ پھر ڈاکٹر وجاہت فوراً سے بولے۔
“افتخار صاحب کی حالت ٹھیک نہیں ہے مگر وہ پھر بھی ہمت متجمع کرتے ہوئے اپنے ہوش و حواس برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اور ابھی انہوں نے بیگ صاحب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے میں آپ کو بلانے خود باہر آیا ہوں۔آپ پلیز میرے ساتھ اندر آئیے۔”
ڈاکٹر صاحب کی بات سنتے ہی ابی فوراً سے ان کی پیروی کرتے ہوئے آئی ۔ سی ۔ یو کی طرف چل دیے۔ علی اعظم بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔
                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور یہ سب دریچہ ہائے خیال
جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں
بند کر دوں کچھ اس طرح کہ یہاں
یاد کی ایک کرن بھی نہ آ سکے
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
جیسے تم صرف ایک کہانی تھی
جیسے میں صرف ایک فسانہ تھا
وہ فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اسی حالت میں بیٹھا تھا۔ ابی کا فیصلہ اس کے لیے قبول کرنا پہلے بھی مشکل تھا۔ اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنی انا کو پسِ پشت ڈال کر اس نکاح کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔ مگر قسمت کا کھیل تو دیکھیں خضر بیگ جس نے کبھی کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی کے دوران کئی لڑکیاں اس کے آگے پیچھے پھرتیں اس کے ساتھ کی خواہشمند رہتیں، مگر وہ اپنے خاندان کی عزت اور وقار کا خیال رکھتے ہوئے ہمیشہ خاندانی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے عورت کو عزت دیتا اور کبھی کسی کی طرف غلط نگاہ سے نہ دیکھتا۔ لیکن قسمت کے عجب کھیل کا آج وہ شکار ہوا تھا۔ راہ چلتے کسی لڑکی کی آنکھوں کے سحر میں اس قدر مبتلا ہوا کہ اپنا دل بے قابو ہوتے دیکھا اس کیفیت سے وہ انجان تھا۔ آج سے پہلے کبھی اس کی یہ حالت نہ ہوئی تھی ۔ جو آج اس کا حال تھا۔ اس کے دل میں عجب درد کی ٹیس اٹھی۔ آج پہلی بار اس نے اپنے دل کو کسی کے لیے دھڑکتا، کسی کے ساتھ کو پانے کی آرزو کرتا محسوس کیا۔ مگر وہ اتنا خودمختار ہونے کے باوجود ، اپنی زندگی میں ہر چیز کا چناؤ خود کرنے والا ، آج اپنی ہی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے کو کرنے میں اسے کوئی اختیار حاصل نہیں تھا ۔ اس نے آج اپنے دل کی خواہش کا گلہ گھٹتے محسوس کیا۔ اسے لگا اس کا دل آج رو رہا تھا۔ مگر ضبط کا دامن تو دیکھیں درد کی انتہاء ہونے کے باوجود اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا تھا۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے چادر کے پلو سے منہ کو ڈھانپے اس حسینہ کا وجود جھلملایا ۔ ان بلوری آنکھوں کے عکس نے اس کو پاگل کر رکھا تھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ان آنکھوں کے حصار سے خود کو باہر نہ نکال سکا پھر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سجدۂ ریز ہوتے ہوئے اپنا سر زمین کے ساتھ ٹکا دیا۔ اپنے اندر پنپتی ایک خواہش کو اس نے خود ہی گلہ گھونٹ کر دفن کرنا چاہا۔ اور ممکن بھی تھا کہ وہ اپنی اس خواہش کو خود دفنا کر ابی کے فیصلے کو قبول کر لے۔ کیونکہ وہ کوئی عام مرد نہیں تھا ۔ وہ مضبوط اعصاب کا مالک انسان تھا ۔ وہ خضر بیگ تھا۔ جس کی تربیت اس کی ماں نے کی تھی۔ اور ایسی تربیت کے لوگ اس کے ساتھ کی خواہش کرتے تھے۔ مگر وہ سب کے ساتھ صرف ایک حد تک رہتا اور ایک حد تک بات کرتا۔ وہ خود کو اس اذیت سے نکالنے کے لیے اپنے اندر موجود اس انسان سے خود ہی جنگ کر رہا تھا۔
                           ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشینوں کے جال میں گھرے آیہ ۔ سی ۔ یو میں مصنوعی سانس کے سہارے افتخار صاحب نیم وا آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک بھرے ابی کو اپنے قریب آتے دیکھ رہے تھے۔ بی فوراً سے ان کے پاس آئے اور ان کا ہاتھ تھام کر کھڑے ہو گئے۔ افتخار صاحب نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر آکسیجن ماسک کی وجہ سے وہ بول نہیں پا رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کی خوایش پر کچھ لمحوں کے لیے ان کا آکسیجن ماسک ہٹا دیا تو افتخار صاحب نے ایک لمبا سانس بھرا اور پھر قدرے ہمت جمع کرتے ہوئے بولے۔
“بیگ صاحب۔۔۔۔۔۔! “
افتخار صاحب نے ابی کا نام پکارا تو وہ تھوڑا آگے کو جھکے اور اپنے کان ان کے چہرے کے قریب کرتے ہوئے بولے۔
“جی بولیے! کیا حکم ہے میرے لائق۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ابی نے استفہامیہ انداز میں خوشدلی کے ساتھ پوچھا تو افتخار صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک قطرہ پھسلا۔ اور وہ روہانسی انداز میں بولے۔
“بیگ صاحب ! میری کل کائنات میری گڑیا میری مرجان ہے۔ “
یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک تبسم بکھرا جو ابی کی آنکھوں سے چھپ نہ سکا۔
“میری آپ سے بس اتنی ی گزارش ہے میرے جانے سے پہلے میری مرجان کو ایک مضبوط سائبان دے دیں۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ چند گھڑیاں ہی ہیں ۔ نجانے کب اس کا بلاوا آ جائے اور میری آنکھیں بند ہو جائیں۔ میری بس اتنی سی خواہش ہے میری مرجان کو میرے سامنے اپنی آغوش میں لے لیں۔ جمعے کو ہونے والا نکاح ابھی کروا دیں۔ تاکہ میں چین سے اس دنیا سے رخصت ہو سکوں۔ میرا فرض ادا کرنے میں میری مدد کریں۔ تاکہ میں سکون سے مر تو سکوں۔”
افتخار صاحب التجائی انداز میں گزارش کر رہے تھے۔ ابی نے فوراً سے ان کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اٹل لہجے میں بولے۔
“آپ فکر نہ کریں نکاح ابھی اور اسی وقت ہو گا۔ “
ابی کے لہجے کی پختگی دیکھ کر افتخار صاحب کو کچھ حوصلہ ہوا اور وہ دھیمے سے مسکرا دیے۔
“افتخار صاحب ! آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اب مرجان میری ذمے داری ہے ۔ اس کی خوشیوں بھری زندگی کی میں گارنٹی دیتا ہوں۔”
ابی انہیں حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مرجان کی زندگی میں خوشیوں بکھیرنے کی یقین دہانی کروا رہے تھے۔ اور افتخار صاحب وہ تو ابی کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کر رہے تھے۔ علی اعظم کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر تھا۔ وہ اپنے سامنے اپنے دوست کو اس حال میں دیکھ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہے تھے۔ لیکن مرجان کو ایک اچھے خاندان کے سپرد کرنے کی ذمےداری انہوں نے بخوبی نبھائی تھی۔ جس پر ان کا دل اور ضمیر بے حد مطمئن تھا۔
“آپ بالکل بھی فکر نہ کریں ، میں سارے انتظامات کر چکا ہوں بس تھوڑی ہی دیر میں فجر ہونے والی ہے اگر آپ اجازت دیں تو فجر کی اذان کے فوراً بعد ہی نکاح کا مقدس فریضہ انجام دیا جائے گا۔”
افتخار صاحب نے ابی کی بات پر ہلکا سا سر ہلا کر رضامندی ظاہر کی ۔ تو علی اعظم بھی دھیمے سے مسکرایا اور پھر ڈاکٹر صاحب نے آکسیجن ماسک افتخار صاحب کے منہ پر لگا دیا۔ کیونکہ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ انہیں زیادہ دیرتک آکسیجن ماسک کے بغیر رکھا جائے۔
پھر وہ باقی کے انتظامات کو کرنے کے لیے آئی۔ سی۔ یو سےباہر آ گئے۔ مرجان کی حالت بہت خراب تھی۔ ابی نے ابھی نکاح کرنے والی بات علی اعظم کے سپرد کر دی ۔ کیونکہ ایک دو ملاقاتوں میں ان کی مرجان سے زیادہ بات نہیں ہوئی تھی۔ لہذا انہوں نے علی اعظم سے کہا کہ وہ نکاح والی بات سے خود مرجان کو آگاہ کریں۔ اور انشاء اللہ فجر کی اذان سے پہلے وہ خضر کو لے کر اور نکاح خواں کے ساتھ آ جائیں گے۔ علی اعظم نے ان کی بات پر اثبات میں سر ہلایا ۔ پھر ابی وہاں سے چلے گئے۔ اور علی اعظم مرجان کے قریب چئیر پر بیٹھ گئے اپنا دستِ شفقت اس کے سر پر رکھا اور دھیمے سے بولے۔
“گڑیا۔۔۔۔۔۔۔!”
مرجان نے بھیگی پلکوں کو اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور بےچین انداز کے ساتھ بولی۔
“انکل! ابا تو ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ فکرمندی سے پوچھ رہی تھی۔ اس کی پلکوں کی جھالر تواتر سے بھگی ہوئی تھی۔ وہ بے حد پریشان تھی اس نے دو دن سے کچھ بھی کھایا نہیں تھا ۔ وہ بہت ضدی لڑکی تھی۔ جب کسی چیز کی ضد کر لیتی تو پھر کوئی بھی اسے اس کی ضد سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔
“مرجان! میری گڑیا تمہارے ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اور ہمیں ان کی خواہش کی تکمیل ابھی کرنی ہو گی۔”
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے ان کی ابھی ہونے والی ملاقات سے آگاہ کیا اور پھر اسے ان کی خواہش سے متعلق بتایا۔
“تمہارے کی خواہش ہے کہ ابھی اسی وقت تمہارا نکاح کر دیا جائے تاکہ وہ سکوں سے دنیا سے رخصت ہو سکیں۔”
یہ سننے کی دیر تھی کہ مرجان کی ہچکی بندھ گئی۔ وہ زاروقطار رو دی ۔ اس کے ذہن میں کئی سوال ابھرے ۔
“کیا میں ابا پر بوجھ بن چکی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ کیا اس وقت جب وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں انہیں اس وقت بھی میری ہی فکر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ علی اعظم نے اس سے اس کی رضامندی پوچھی۔
“بیٹی! تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے علی اعظم کے سوال پر ایکدم ہی نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔ قدرے سوجھی ہوئی پتلیوں کے ساتھ مخمور آنکھوں میں کئی سوالات تھے۔ جو علی اعظم کی نگاہوں سے چھپے نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی وہ خاموشی کے سر جھکائے اثبات میں سر ہلا گئی۔ اور رندھے لہجے میں بولی۔
“اگر ابا کی یہی خواہش ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
اس سے آگے وہ کچھ بول ہی نہ پائی۔ رمشا کو اس کی حالت پہ رحم آ رہا تھا۔ مگر وہ بھی کچھ بول نہ پائی۔ علی اعظم نے محبت سے اس کے ماتھے پر لب رکھے اور بوسہ دیتے ہوئے اس کی خوشیوں کے لیے دعا کی۔
                                                    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button