رومینٹک ناول
Trending

عشق یار | از قلم بلوچ رائٹس | رومینٹک ناول خمار جاں #زندگی گلزار ہے

#romanticnovels, #urdunovels, # sadstories,

 

عشق یار

از قلم بلوچ

قسط نمبر 1

Posted On : Hina Shahid Official
Category: Romantic Novel 

Welcome to Hina Shahid Official – A Poetic Haven:
Embark on a journey into the eloquent world of poetry and insightful articles at Hina Shahid Official. This digital sanctuary is dedicated to weaving words into emotions, offering a collection of poignant verses and thought-provoking articles.
Immerse yourself in the enchanting realm of poetry, where emotions dance gracefully across verses, painting vivid pictures with the strokes of words. Explore our articles, each a narrative crafted to inspire contemplation and reflection.
At Hina Shahid Official, we transcend the ordinary, embracing the beauty of language to create a space that resonates with lovers of poetry and seekers of profound insights. Join us in this literary adventure, where every line is a whisper of the soul, and every article a captivating exploration of life’s intricacies.
Indulge in the magic of words, where poetry and articles converge to offer a unique and enriching experience. Welcome to Hina Shahid Official – where literature comes alive in verse and prose.

خوش آمدید ہے حناء شاہد آفیشل – ایک شاعرانہ معاصر:

حناء شاہد آفیشل پر خیالات بھرے شاعری اور فہم سے بھرپور مضامین کی دنیا میں سفر کریں۔ یہ ڈیجیٹل مقدس جگہ الفاظ کو جذبات میں بنانے میں مصرف ہے، جو دلچسپ غزلیات اور دلچسپ مضامین کا مجموعہ فراہم کرتا ہے۔
اپنے آپ کو شاعری کے حسین باغ میں سیر کروائیں، جہاں جذبات کسی بھی بلندی تک لذت سے چھلے جاتے ہیں، الفاظ کی مہارتوں کے زیر اثر رنگین تصاویر کو چھپاتے ہیں۔ ہمارے مضامین کا کھلم کھلا مطالعہ کریں، ہر ایک ایک قصہ وہی ہے جو خیالات کو بھڑکانے اور تفکر میں مبتلا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

حناء شاہد آفیشل پر، ہم عام سے باہر جاتے ہیں، زبان کی خوبصورتی کو قبول کرتے ہیں تاکہ ایک جگہ پیدا ہوسکے جو شاعری کے دلداروں اور عمق کی تلاشوں سے گونجتی ہے۔ ہمارے ساتھ مل کر اس ادبی سفر میں شامل ہوں، جہاں ہر لائن روح  میں رچ بس جاتی ہے، اور ہر مضمون زندگی کی پیچیدگیوں کی دلچسپ خصوصیات سے بھرا ہوا  ہے۔

الفاظ کے جادو کا لطف اٹھائیں، جہاں شاعری اور مضامین ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں تاکہ ایک مختلف اور ثریاتی تجربے کا حصہ بن سکیں۔
خوش آمدید ! حناءشاہد آفیشل
جہاں ادب حقیقت اور مصرعے میں زندگی کو پا لینے کا جذبہ فراہم کرتا ہے۔

Hina Shahid Official start a journey for all social media writers to publish their writes. Welcome to all Writers , test your writing abilities. They write romantic novels, forced marriage , hero police officer based urdu novels, very romantic urdu novels, full romantic urdu novels, urdu novels, best romantic urdu novels, full hot romantic urdu novels, famous urdu novels, romantic urdu novels list, romantic Urdu Novels of all, Best Urdu Romantic

 رومینٹک ناول : عشق یار

تحریر : بلوچ رائٹس

قسط نمبر : 1 

is available here to online reading.
Give your feedback Plz✍️❣️👇👇

ان سب ویب بلاگ، یوٹیوب چینل، اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ حناء شاہد آفیشیل اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہوں گے۔

Copyright Reserved By Hina Shahid Official

ناول  پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیں کہ آپ کو یہ ناول کیسا لگا اور حناء شاہد آفیشیل کی یہ کاوش کتنی پسند آئی ہے ؟ شکریہ۔ آپ کے کمنٹس کا شدت سے انتظار رہے گا ۔

Note: All copyrights are reserved by Hina Shahid Official. So don’t reupload my meterial on any other Platform. If Anyone will try to use my content Then They will face a strike in that case. 
We are Constantly working hard on making the www.hinashahidofficial.com website  Better & more entertaining for you. we need your constant support to get going. Please feel free to comment box for any queries / Suggestions / problems or if you just want to say hi. we would love to hear from you. if you have enjoyed the Poetry Articles & Romantic Novel’s please don’t forget to like , share & comment’s.
___________
Disclaimer:  This website does not promote or encourage any illegal activities . All the contents provided by this website ; www.hinashahidofficial.com
Is meant for educational  perpose only.
______________
justpoetry, 
 justpoetry,
 UrduShairy,
BestUrduPoetry,
BestUrdupoetryCollection,

 

 

 عشق یار از قلم بلوچ رائٹس قسط نمبر 1″ آئیے یہ جو عمارت دیکھ رہے ہیں آپ لوگ یہ ہے درانی ھاؤس کی عمارت ۔اندر چلتے ہیں ۔ گیٹ کے سامنے یہ پورچ ہے اور یہ سائیڈ پر لان ۔ اور لان کے سامنے سے انٹرس کا دروازہ ہے جس سے میں ابھی اندر جانے لگا ہوں۔ ”
وہ قدم اندر بڑھاتا ہوا ساتھ ساتھ کمنٹری کرنے میں مصروف تھا ۔
”  آئیے ! انٹرس کی راہداری کے بعد آتا ہے لاونج اس کے دائیں جانب صوفے اور بائیں جانب کچن ہے اوپن  پلس بند کچن”
وہ کچن کے سامنے کھڑا ہوتا اُسکا نظارہ کرواتا ہے ۔
”  ہمارے گھر کے بڑے حضور فرماتے ہیں کہ یہ کچن دادی ماں نے سب سے ہٹ کر بنانے کےلئے بنوایا ۔ اس کے سامنے ایک دیوار ہے جو درمیان سے نہیں ہے مطلب کھڑکی جیسا بڑا سا ہول ہے  جہاں سے لاونج نظر آتا ہے ”
” ارے میں بھی کتنا پاگل ہوں آپ کو نظر آرہا ہے پھر بھی بتا رہا ہوں ۔ ” وہ اپنے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہتا ہے ۔
” لیکن پھر بھی آپ کو سب کچھ تھوڑی پتہ ہے”

” اس کے سائیڈ سے چھوٹا سا دروازہ ہے ۔ اور کچن کے سامنے یہ رہا ڈاننگ ٹیبل جس کے گرد پوری بارہ کرسیاں لگی ہوئی ہیں ۔ پہلے گراؤنڈ فلور ۔ اس پر پانچ کمرے ہیں جو ایک سٹور اور باقی چار گھر کے بڑے حضرات کے لئے ہے ۔فرسٹ فلور ۔اس پر پانچ کمرے ہیں چار گھر کے سب سے چھوٹی عوام کیلئے اور ایک روم ان کی لائیبریری پلس فن روم ہے ۔ ٹوپ فلور ۔ اس میں پانچ کمرے ہیں جو گھر کے درمیانی عوام کے لیے ہیں اور ایک ان کی سٹڈی روم ہے ۔ اب آئیے ملتے ہیں گھر کی عوام سے ۔”
وہ ایک ہی سانس میں کہتا  لاؤنج میں بیٹھی نور درانی کو دیکھتے اوپر کمرے کی طرف دوڑ لگا دیتا  ہے ۔

”  گھر کے سربراہ دلاور درانی بیگم نور ۔ سیاست کے اہم رکن ۔تین بچے سب سے بڑا دارق درانی ۔ان کے والد صاحب چاہتے تھے سیاست میں قدم رکھے وجہ اس کا خوبرو ہونا ذہین ہونا ہر پوائینٹس کو ڈبل پوآئینڈڈ دیکھنا ۔مگر انھوں نے پولیس جوائین کرلی اسسٹنٹ کمشنر اے سی صاحب ۔ان سے چھوٹے آتق درانی ۔فارغ ان کا بس ایک ہی مقصد ہے ۔زندگی جینا اور فضول کاموں میں اُسے  سپوئل نہ کرنا ۔ ان سے چھوٹی درین درانی یونی کی سٹوڈنٹ ۔کتابی کیڑا اور ڈر سے بھری لڑکی ۔ “

وہ کیمرے کو شیشے کے سامنے سیٹ کرتا بیڈ پر بیٹھا سب کا نقشہ  بنانے میں مصروف تھا ۔
اب چلتے ہیں اس گھر کے دوسرے سربراہ کی طرف داور درانی ۔ بیگم ھاجرہ مگر علیحدگی ہوگئی ہے ۔ یہ بزنس مین ہیں اور بیوی کے بعد ان کی لائف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ ان کے بڑے بیٹے سالار درانی ان کے خلاف جا کر بزنس کی دنیا میں قدم رکھا  ۔اور ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ان سے چھوٹے رائد درانی ۔سب سے خلاف خاموش ،سنجیدہ ، ٹھہری شخصیت”
وہ ہر شخص کا نقشہ  بنانے کے بعد ایسے سانس لیتا جیسے کوئی بڑا بوجھ سر سے اتارا ہو۔ 

“۔ اس گھر کی تیسری سربراہ ۔ آسما درانی ۔ شوہر کی وفات ہوئی ہوئی ہے چونکہ شادی چچا زاد سے ہوئی تو یہ اسی گھر کی مکیں تھی ہمیشہ سے ۔ ان کی کافی سال اولاد نہ ہوئی ۔ مگر جب ہوئی تو دو جڑواں بیٹیوں سے نوازاگیا ”
وہ آخری بات پر ناک منہ چڑانے لگا ۔

“کائرہ درانی غصہ ہر وقت ناک پر سوار رہتا ۔ غلط بات کو معاف نہیں کر سکتی اور کسی بات پر کومپرومائز ان کی ذات کا خاصہ ہی نہیں ہے ۔”

” اور دوسری حدیکہ درانی” ۔ حدیکہ کا ذکر کرتے ہی اُس کے چہرے کے عصاب نرم ہوگئے ۔

” ۔بلکل کائرہ کا الٹ آگ پانی کہنا مناسب ہوگا ۔ دھیما پن ، ہنس مکھ ، لڑائی جھگڑے سے دور ، اور سب کی بات مان لینا ۔اس کی اسی عادت سے کائرہ کڑھتی ہے ”
”  ۔ وہ ان کا پارٹ کبھی نھیں بنی ۔ وہ خود میں رہتی ہے  ۔ غرور نہیں ہے مگر عادت  ہے ۔ اس گھر میں غرور صرف دو لوگوں میں پایا جاتا ہے اور وہ ہیں سالار اور دارق وجہ ان کا سب سے خوبصورت ہونا ،  باقی سب بھی خوبصورت تھے مگر ان کی بات ہی الگ تھی ۔ ایک سحر ہے ان کی شخصیت میں کسی کو بھی دیوانہ بنا دے اگر کوئی نہیں بنا تو صرف کائرہ درانی کیونکہ حسن کی شاہکار تھی ۔ خوبصورتی سے مالامال ۔اور اس پر ان کی ہونٹ کا تل ۔ اففف الللہ”
۔اچانک سے اس نے  کانوں کو ہاتھ لگائے ۔ کیونکہ اگر کائرہ سن لیتی تو اس کی یہی قبر کھود دیتی ۔

۔” اب چلتے ہیں میری طرف ۔ میں ہوں آتق کا ماموں زاد بھائی عائش ۔میرے والدین کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا ہے شاید بہت چھوٹا سا تھا میں تب۔ مجھے میری پیاری آنی (نور بیگم ) نے پالا ہے اور ماں باپ کی محبت سے نوازا ۔ میں ولاگر بننا چاہتا ہوں اس لئیے کوئی جاب نہیں کرتا ۔ اب اس گھر کا مکمل تعارف مل گیا ہوتو چلتے ہیں کھانے پر میں صبح سے بھوکا ہوں کچھ کھا کے آپ سے دوبارہ ملاقات کرتا ہوں ۔ “

فن روم :

ایک وال پر ان چاروں کی تصویریں لگیں ہوئی تھی ۔دوسری وال میں بک ریک جس میں مختلف کتابوں کی تعداد تھی اور گٹار لگا تھا اور تیسری وال گلاس ڈور تھی جو ٹیرس پر کھلتا تھا ٹیرس پر تین گراؤنڈ فلور صوفے پڑے تھے اور کچھ پھولوں سے بھرے گملے ۔ کمرے کے درمیان میں گول میز کے گرد چار کرسیاں پڑی تھی اور تصاویر والی وال کے سامنے ایک بیڈ پڑا تھا ۔ جس پر حدیکہ(موبائل پر) اور درین (بک پر )بیٹھی سنیکس سے ہاتھ صاف کرتی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھی ۔ جبکہ اسی بیڈ کے پاؤں والی سائیڈ پر کائرہ زمین پر بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی گانے سن رہی تھی ۔ اور عائش کرسی پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر مووی دیکھ رہا تھا۔ اچانک ملازمہ نے دروازہ بجایا ۔

” آجاؤ”
”  ۔ بیبی جی آپکو بڑے صاحب بلا رہی ہیں ”
” گلے بلا رہے ہیں  ، ہوتا ہے ”
” جو بی ہوتا ہم کو نہی پتہ ۔ آپ بس آجاؤ ۔ “

۔”  ہممم آتے ہیں ۔ “

اب سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔
” آخری دیدار کرلو میرا اب تو ہم گئے ۔”
عائش کہتا اٹھنے لگا ۔
”  پہلے چلو تو سہی پھر دیکھتے ہیں کس کی شامت آئی ہے ۔ ”
حدیکہ کہتی نیچے چل دی ۔

“آپ نے بلایا آغا جان” ۔ کائرہ آتے ہی پوچھنے لگی ۔
۔” آؤ بیٹھو ”
۔ آغا جان نے اسے ایک نظر دیکھا پھر شروع ہوئے ۔
” کل کہاں گئے تھے تم چاروں” انہوں نے حدیکہ سے پوچھا ۔
”  ۔ آغا جججان و۔۔۔۔۔وہ ہم لوگ ”
” اب بول بھی دو ۔” اچانک دارق بول پڑا ۔
” ایک منٹ رکو حدی ( حدیقہ)”  کائرہ اس کے سامنے آئی

” آپ ہوتے کون ہیں ہم سے ایسے بات کرنے والے ”
” کائرہ ”
اسما نے اسے گھرکنے کے انداز میں کہا ۔
” ایک منٹ امی” ۔ وہ اسماء کو دیکھتی دوبارہ اُس کی جانب رخ کیا ۔
۔ ” اب کوئی نہیں بولے گا ”
اُس نے باقیوں کو بھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔

” تم بتاؤ ہوتے کون ہو ہم سے سوال کرنے والے ۔ یہ ہمارے بابا کا بھی گھر ہے ۔صرف تم لوگوں کا نہیں ہے جو تمھاری ہر بات مانیں گے ۔ حد میں رہو سمجھے ۔” وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے ۔

” تم نہ سر پر سوار نہ ہو  سمجھیں ۔  اور ہاں ہوگا گھر آپکے بابا کا مگر داؤ پر عزت میرے بابا کی لگا رہی ہو جو میں برداشت نہیں کروں گا ” ۔ وہ غصے میں آپے سے باہر ہوتا اُسے کہتا ہے ۔
“ایک منٹ ایس پی صاحب ” وہ اُس کے انداز کو مکمل نظر انداز کرتی ہے ۔
۔”  میں مجرا نہیں کر رہی تھی وہاں ۔ جو تم لوگوں کی عزت پامال ہو گئی ۔”

” کچھ اس سے کم بھی نہیں تھا .تمھارے جھگڑے کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم تھا وہاں اور اسی ہجوم میں سے کسی نے تمھاری ویڈیو بنا کر اپلوڈ کر دی ۔ اب بتاؤ عزت داؤ پر لگی ہماری یا نہیں ۔ صرف کوٹھے پر مجرا نہیں ہوتا شریفوں کا مجرا بھی ہوتا ہے جس میں تم سب سے آگے ہوتی ہو  ۔ باقی دونوں لڑکیوں کی طرح رہتی ہیں اور ایک یہ لڑکوں کی طرح کپڑے پہنے گھومتی ہے  ۔ وہ غصے میں اُس کی حلیے پے  بات کرجاتا ہے جس سے کائرہ کا غُصہ اور بڑھ جاتا ہے ۔
” آپ کو کیا مسئلہ ہے ۔ میں جو بھی کروں  ۔ میری زندگی مجھے جینے آتی ہے ۔ آپ سے پوچھ کے سانسیں نہی لوں گی میں سمجھے ” وہ چیخنے کے انداز میں کہتی واپس جانے لگتی ہے جب وہ اُس کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنی طرف موڑتا ہے ۔
” تمھاری مرضی میں نکالوں گا ۔ اب بتانا پسند کرو گی کیوں کر رہی تھی وہاں مجرا ”
۔وہ مجرا لفظ پر زور دے کر کہتا ہے ۔

” جواب چاہیے نہ یہ لو”
وہ اپنی کلائی  آزاد کرواتی پاس پڑا جوس کا جگ اس پر انڈیل دیتی ہے
“کائرہ”
۔سب آگے بڑھتے ہی ہیں کہ اگلا لمحہ سب کو ساکت کر دیتا ہے ۔
  وہ اسے تھپڑ رسید کر دیتا ہے ۔ “اوقات میں رہو اپنی ۔ اتنی اکڑ ہے نہیں تم میں جتنی میں توڑ دوں گا۔ سمجھیں” وہ غصے سے اُسے کہتا  وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔ وہ بھی کمرے میں چلی گئی
۔باقی سب بھی منظر عام سے ہٹ گئے ۔

وہ مسلسل کسی کا نمبر ٹرائے کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ مگر مقابل شاید مصروف تھا ۔ جب تیسری بیل پر کال اٹھائی گئی تو جلدی سے بولی ۔
”  کال مت کاٹیے گا سالار بھائی ” وہ اگلے کے مزاج بهانپتی اُسے کہتی ہے ۔
“ہمم کہو این( درین) کیا بات ہے ”  وہ اسے آج کا سارا واقع بتاتی ہے ۔
” وہ دروازہ نہیں کھول رہی ” وہ پریشانی سے اگلی بات بتاتی ہے ۔
”  اس پاگل لڑکی کا کیا کروں میں ” وہ اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیتا ہے ۔ جیسے یہ سب روز کا ہو ۔ 
”  بھائی وہ پاگل نہیں ہے”   ۔ اب کی بار  دریںن چیخ کر کہتی ہے ۔
“مگر حرکت پاگلوں جیسی ہیں ” ۔ و جواب دیتا وقت دیکھتا ہے ۔
” ۔ آپ تو اپنے دوست کی سائیڈ ہی لیں گے نہ” ۔ وہ اُس پے طنز کرتی ہے ۔
۔ “پتہ ہے تو مجھے کال کیوں کی ہے ” اب وہ حقیقتا سب سے بیزار آچکا تھا ۔
” آپ دارق بھائی سے بات کریں کہ اس سے سوری بول دیں وہ کچھ کر نہ بیٹھے اپنے ساتھ ” ۔ وہ منت بھرے لہجے میں کہتی ہے ۔
۔ ” وہ سوری کبھی نہیں بولے گا  ۔ تمہارا بھائی ہے جانتی ہو تُم اُسے ۔” وہ اُسے حقیقت دکھا رہا تھا ۔
” آپ اتنا سا کام نہیں کرواسکتے اپنے دوست سے پلیز” ۔ غصے سے کہتی پھر منت کرنے لگی ۔
” ۔ دیکھتا ہوں بند کرو فون ۔”  وہ اکتائے ہوئے لہجے میں کہتا کال بند کرچکا تھا ۔

وہ گاڑی کی  چابیاں ،کوٹ اٹھاتا باہر نکلتا ہے ۔
” سر آپ کی میٹنگ ہے ایک گھنٹے بعد ” سیکرٹری اُس کے پیچھے بھاگتا اُسے بتاتا ہے ۔
” کینسل کر دو” ۔ وہ جلدی میں جواب دیتا باہر نکل گیا ۔
”  اوکے سر “
“کتنا ایٹیوڈ ہے ان میں ” ۔ ریسپنشن پر آئی نئی لڑکی کہتی ہے ۔
“غرور کیوں نہ ہو ٹاپ سیکنڈ کمپنی ہے ان کی ۔ بزنس مین کی قسمت اچھی ہو تو ان کی اپونمنٹ ملتی ہے ۔ اگر آج کی ڈیل یہ نہ کریں انھیں فرق نہیں پڑے گا مگر مقابل کمپنی ڈوب جائے گی جو اس میں انوسمنٹ کرے گی ہوں آئی بڑی ہمرے سر کو کچھ کہنے والی ”
عبدللہ( سالار کا سیکٹری) اس لڑکی کو سناتا واک آوٹ کرگیا ۔
………..
ہر طرف بھیڑ جمع تھی ۔ اور وہ اس بھیڑ میں اٹھنے والے شور کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔ ہر طرف بس اُسی کا نام گونج رہا تھا ۔   اپنے آپ میں رہنے والی یہ مغرور لڑکی سب کے دلوں کو فتح کرچکی تھی۔  آج بھی سب اُسی کا میچ دیکھنے گراؤنڈ میں جمع تھے ۔
وہ میچ ختم ہونے کے بعد گراؤنڈ میں اپنی دوست کے ساتھ بیٹھی باتیں کررہی تھی ۔ جب ایک لڑکا اس کے پاس آیا ۔   
” ہائے! میرا نام عثمان ہے ”
وہ اُن کے پاس بیٹھتا اپنا تعارف دینے لگا ۔
” تو میں کیا کروں “
وہ ترقی بترقی اُسے جواب دیتی ہے ۔
چند لمحے بعد وہ دوبارہ بولنے لگا
”  میں آپ کا ہر میچ دیکھتا ہوں ۔ اور کب پتہ نہی آپ  دل میں بس گئی ۔ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ “
ہاہاہہاہاہا ۔ وہ اپنا قہقہ روک کر اُس کو دیکھتی ہے جس کے چہرے کی رنگت بدل چکی تھی ۔
“ایک بار پھر کہو کیا کہا یقین نہی آیا ۔ “
“میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں” ۔
ہاہاہاہاہہاہا ” سن لو یونی والوں لڑکا عشق میں پاگل ہوگیا “وہ ہنستی ہوئی اس کیا مذاق اڑاتے بولنے لگی ۔ جب کے آس پاس قہقوں کی بھرمار ہوگئی ۔
اُس کی رنگت سرخ ہوگئی تھی ۔ وہ لمحے میں زمین پر گر جاتا اگر پیچھے سے اُسے کوئی نے تھامتا ۔
“مس قندیل رہبانی ۔ اپنی اوقات میں رہو”  وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوگیا ۔
“کیا ہوا آگ کیوں لگ رہی ہے ۔ “
” آگ کیا ہوتی ہے تمہیں میں بتاؤں گا ۔ تم زندگی کی بھیک نہ مانگنے لگی تو کہنا ۔ ” وہ عثمان کو پیچھے کرتا اُس کے مقابل آیا تھا ۔
” تُم قندیل رہبانی کو ہلکے میں لے رہے ہو ۔ تم جانتے نہی ہو مجھے میں کون ہوں ؟ میرا باپ کون ہے ۔؟”
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتی کہتی ہے ۔
” تمہارا تو پتہ نہیں مس قندیل رہبانی ۔لیکن تمہاری سات نسلیں یاد رکھیں گی مجھے۔  تُم نے میرے دوست کا مذاق نہی بنایا تُم نے میرا مذاق بنایا ہے اور میں کسی کو معاف کرکے بھی معاف نہی کرتا۔ ” وہ اُس کو جتاتا جانے لگتا ہے ۔
” جاؤ جاؤ بڑے دیکھے تمہارے جیسے ”
قندیل اُس کو پیچھے سے اونچی آواز میں کہتی ہے ۔
“ابھی دیکھا ہی کیا ہے ابھی تو دیکھنا باقی ہے”  ۔ وہ بنا گھومے اُسے جواب دیتا ہے ۔
اس سے پہلے وہ اُسے کچھ کہتی اُسے پیچھے سے شور کی آوازیں سنائی دیں ۔
” قندیل ۔ تمہارے بھائی کی طبیعت خراب ہوگئی ہے جلدی چلو ۔ “
اُسے اُس کی ہاسٹل کی لڑکیاں وہاں سے لے گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” آتق !  کیا ہوگیا ہے جانے دے بات ختم کر ۔ تو آج پہلی بار مُجھ سے ملنے وہاں آیا اور جھگڑا مول لے لیا “
وہ اُسے سامنے بیٹھاتا سمجھانے لگا ۔

” مانی تیرے لیے یہ چھوٹی بات ہے
میرے لیے نہی ہے۔  اُس لڑکی کی ہمت کیسے ہوئی تُجھے منع کرنے کی”
آتق یکدم بھڑک اٹھا ۔
” اچھا  چھوڑ نہ . یہ بتا امریکہ سے کب آیا ۔ ” وہ بات تبدیل کردیتا ہے ۔
” کل رات کو آیا تھا ۔ فلیٹ میں ركا تھا ۔ تُجھ سے ملنے کے بعد گھر جاؤں گا ۔ ” وہ اُسے اپنے آنے کی تفصیل بتانے لگا جب اُسے قندیل نظر آئی ۔
” تو بیٹھ میں آیا ” وہ اٹھ کر اُس ٹیبل کی طرف چل دیا جہاں قندیل بیٹھی تھی ۔ اس بار وہ اکیلی نہی تھی ساتھ میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا بھی تھا ۔
عثمان بھی اُس کے پیچھے چل دیا ۔

” ہائے ! میں آتق درانی” ۔ وُہ اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے کہتا ہے ۔ 
” جی فرمائیں کیا فرمانا ہے آپنے ۔” وہ نظریں جھکائے جواب دیتی ہے۔ 
” آپ نے مجھے پہچانا نہی ” وہ حیرت سے اُس کی طرف دیکھتا ہے ۔
اب کی بار وہ سر اٹھا کر دیکھتی ہے ۔
” تُم ” وہ حلق کے بل چلائی ۔
” ہاں میں ۔ تم تو ایسے چیخی جیسے کوئی جن بھوت دیکھ لیا ہو ۔ با خدا اتنا برا نہی دکھتا میں ۔ ” وہ ہنستا ہوا پیچھے صوفے کے ساتھ پشت ٹکا  کر بیٹھ گیا ۔
” یہاں کیا کرنے آئے ہو .”   وہ اُس کی ہنسی کو نظرانداز کرتی اُس سے سوال کرتی ہے ۔
” یہاں کیوں آتے ہیں لوگ ” اب وہ ریستوران کو دیکھتے جیسے اُس کا مذاق اڑا رہا تھا ۔
تُم اس ٹیبل پر کیا کرنے آئے ہو ۔ وہ اپنا غُصہ کنٹرول کرتی  ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھتی اُس کے سامنے جھکتی اُس سے پوچھنے لگی ۔
“ارے غُصہ کیوں ہورہی ہیں ۔ میں تو معافی مانگ کر دوستی کرنا چاہتا ہوں ۔ ” وہ سکون سے کہتا پشت دوبارہ ٹکا گیا ۔
“معافی مانگنی ہے تو سب کے سامنے مانگو یہاں تو صرف کچھ لوگ ہیں مسٹر آتق درانی ۔ ” وہ اُس کے نام پر زور دیتی  اُس کی نظروں میں دیکھتی اُسے کہتی ہے ۔
“ٹھیک ہے ۔ میں کل اسی وقت اُسی جگہ تُم سے معافی مانگ لوں گا ۔” وہ پرسکون سا جواب دیتا مسکرا کے وہاں سے چل دیا ۔
اب تک خاموش بیٹھا عثمان اُس کے پیچھے بھاگتا آیا ۔
” کیا کررہے ہو ۔ کبھی جھگڑا کبھی معافی ”
“تُجھے جھگڑے سے بھی مسئلہ تھا اب معافی مانگ رہا ہوں تب بھی مسئلہ ہے”
“آتی یا تو تُجھے میں جانتا نہ ہوں پھر مان بھی لوں کے تو معافی مانگ رہا ہے ۔ تیرے دماغ میں کیا خرافات چل رہی ہے ۔ کہیں تو بدلہ لینے کیلئے تو ۔ دیکھ آتی جو ہوا جانے دے میں بھول چکا یار ۔ کیوں مسئلہ بڑھا رہا ہے ۔”
وہ اُس کے سامنے آتا اُسے  سوال کرتا پھر  ، پیار سے سمجھانے لگا 

” میں سچ میں معافی مانگ رہا ہوں نہیں یقین کل دیکھ لینا ۔ اور بدلے کی بات تو وہ میں ایک دِن ویسے بھی لے لوں گا ۔ اس لیے زندگی کو جینے کے بعد دشمنی پالوں گا میں ۔” وہ سکون سے کہتا عثمان کا سکون غارت کرچکا تھا۔
سارا راستہ عثمان کی باتوں کو نظرانداز کرکے اُسے گھر اُتارنے کے بعد اب وہ گھر کی طرف گاڑی کا رخ کے چکا تھا ۔

“یار دارق یہاں کیا کررہے ہو ؟”
وہ ہمیشہ کی طرح اُسے ڈھونڈتے جھیل کے کنارے آیا تھا ۔
” کچھ نہی “
” تو اسے بتا کیوں نہیں دیتا کے تو اُس سے محبت کرتا ہے “وہ اُس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا ۔
اب کی بار دارق نے سے اٹھا کر اُسے دیکھا ۔ اُس کی  لال آنکھیں اُس کے رونے کا پتہ دے رہی تھی۔
” کیا بتاؤں وہ نفرت کرتی ہے مُجھ سے”   وہ پھر چہرہ جھکا گیا ۔
“کوئی نہی کہہ سکتا ۔ جس کے نام سے گنڈے ڈرتے ہیں ۔ جس کی موجودگی ہی سامنے والے کو کاپنے پر مجبور کردے وہ ایک لڑکی کیلئے رو رہا ہے ” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا اُسے غُصہ دلا گیا۔
“عشق  ہےوہ میرا۔ دارق درانی کی روح میں بستی ہے وہ ۔ نس نس میں دوڑتی ہے ۔تو نہی جان سکتا وہ میرے لیے کیا ہے تو نے کبھی عشق جو نہی کیا “۔ وہ غصے میں چلا کر  کہتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔

(تونے کبھی عشق جو نہی کیا ) وہ اُس کے الفاظ یاد کرتا تلخئ سے مسکرایا ۔
” مُجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے عشق کو ۔ میرا تو یارانہ ہے جیسے اس سے “وہ ایک بار پھر تلخئ سے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتا گھر کے ارادے کو چل پڑا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“دروازہ کھولو کائرہ ۔ “
ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک ۔ وہ مسلسل دروازہ پیٹ رہی تھی مگر سامنے والی جیسے بھانگ پي کر بیٹھی تھی جس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا ۔
“آپ لوگ کچھ کر کیوں نہی رہے ۔ و صبح سے بند ہے کمرے میں”وہ غصے اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھے لوگوں کو کہتی ہے ۔
“اچھا ہے بند رہے دماغ خراب ہے اُس لڑکی کا سب کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ۔ جتنا پیار کررہے ہیں اتنا ذلیل کررہی ہے ۔ایک غلطی اوپر سے سینا زوری ۔ ” کچن سے نکلتی اسماء بھڑک اُٹھی ۔
“پھوپو ۔ آپ ماں ہیں وہ آپ کی بات مان لے گی آپ کہیں اُسے دروازہ کھولنے کیلئے “۔ عین اُن کی باتوں کو نظرانداز کرتی اُن کے قدموں میں بیٹھی تھی ۔
” آج تک اُس نے میری مانی ہے جو آج مانے گی ”
“پھوپو آپ ”  ۔۔ وہ ابھی کہتی کہ باہر سے آتق آتے ہی اُس کے سر پے چپت لگا گیا ۔
“اور سنا چھپکلی کیسي ہے “۔ وہ اُسے کہتا ہے اب سب سے مل
رہا تھا ۔
اُس کی طرف سے جواب نہ پا کر وہ اُس کی جانب متوجہ ہوا ۔
” کیا ہوا کوئی مسئلہ ہے کیا “
“عین تو خاموش کیوں ہے۔ سب ٹھیک ہے نہ ” وہ اب حقیقتا پریشان ہوا تھا ۔
وہ جو کب سے بھری بیٹھی تھی شفقت ملتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔
“عین بچے کیا ہوا ہے ” وہ لمحے میں اُس کے پاس زمین پر جہ بیٹھا ۔
” اِدھر دیکھو “وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتا اُسے کہتا ہے ۔
ووووہوہوہ ۔ ککککائرررہ ۔
وہ نظریں گھماتا ہے ۔ کائرہ کے نظر آنے پے وہ اسے پھر دیکھتا ہے ۔
” ہاں کائرہ کیا آگے بولو”وہ اب اُس کے آنسو صاف کرتا پوچھتا ہے  ۔
“ککککمررے مممممیں بّببند ہے ۔”وہ ہچکیوں میں بات مکمل کرتی ہے ۔
” کیوں ” ۔ وہ اُسے دیکھتا سوال کرتا ہے ۔
” دری بھائی نے تھپڑ مارا ہے ” عائش اُسے مزید بتاتا ہے ۔
میں اس کو نیچے لے کر آتا ہوں اوپر بیٹھو رونا بند کرو ہممم ۔ گڈ گرل ۔ وه اُس کی پیشانی چومتا جانے لگتا ہے ۔
“رُلایا میںنے ہے تو خاموش بھی میں ہی کرواؤں گا ۔ ”  پیچھے سے آتے دارق نے اُسے روکا ۔
” ٹھیک ہے آپ چلے جائیں “۔
ہممم ۔
وہ ملازمہ سے اسپیئر کی لیتا اوپر چل دیا ۔

ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک ۔ دروازہ کھولو کائرہ ۔
تین تک گنوں گا دروازہ کھولو ورنہ اچھا نہیں ہوگا ۔

” دیکھا آپنے منانے کیلئے بھی روب جھاڑ رہے ہیں ۔ ایسے کون مناتا ہے ” عین روتے ہوئے آنکھیں صاف کرتی آتق کو شکایت لگاتی ہے جس پے سب ہنس پڑتے ہیں ۔

وہ اسپیئر کی سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوتا ہے ۔ لیکن سامنے کا منظر جیسے اُسے پتھرا کر رکھ دیتا ہے ۔ ۔

” کائرہ ۔ کائرہ ۔”
وہ لمحے میں زمین پر گری کائرہ کے پاس پہنچتا ہے ۔ ۔
شور کی آواز سن کر سب اوپر کی طرف بھاگتے ہیں ۔
وہ اسے باہوں میں بھر کر باہر کی جانب بھاگتا ہے ۔
باقی سب بھی اس کے پیچھے ہسپتال جاتے ہیں ۔
آج اُسے اپنی سانسیں بند ہوتی نظر آرہی تھی ۔ وہ لمحے میں تھکا ہارا سا نظر آنے لگا تھا ۔ ۔
۔۔
” ڈاکٹر ۔ ڈاکٹر ۔ ڈاکٹر “
وہ پاگل دیوانوں کی طرح کہتا پورا ہسپتال سر پے اٹھا چکا تھا ۔
” سر آپ انتظار کریں ۔ ڈاکٹر ابھی میٹنگ میں ہیں ”
اگر کائرہ کو کچھ ہوا تو تم اپنی سات نسلوں کو حوالآت سے آزاد نہی کروا پاؤ گے۔  وہ وارڈبوائے کو دھکا دیتا ڈاکٹر کے سر پر سوار ہوتا اُسے دھمکانے لگا ۔
“دیکھیں آپ ایک ڈاکٹر سے  اس طرح بات نہیں کرسکتے ۔ ”
میں کیا کرسکتا ہوں کیا نہیں اس کو رہنے دو اس بات میں نہ پڑ تو تیرے لیے اچھا ہے ۔ اور علاج کر کائرہ کا اور اُسے کچھ نہی ہونا چاہیے ورنہ اپنی سانسیں رکوانے کیلئے تیار رہنا ۔ وہ اُسے دھمکی دیتا باہر نکل گیا جس کے پیچھے ڈاکٹر بھی چلتا بنا ۔
سب اُس کا یہ پاگل پن پہلی بار دیکھ رہے تھے ۔
” آتق ۔ سالار کو کال کرو کہاں ہے وہ ۔ اُسے کہو یہاں آئے اس کے بھروسے پے کائرہ کا علاج ہوا تو یقیناً کوئی مر جائے گا اس کے ہاتھوں سے۔ عجیب انسان ہے پہلے مارتا ہے پھر خود مرتا ہے ۔” دلاور  دیوار سے پشت  لگائے
دارق کو گھور کر کہتے ہیں ۔
” جی بابا”۔

مسلسل عاتق کے نمبر سے آتی کال وُہ نظرانداز کر رہا تھا ۔ ۔
اُکتا کہ وہ کال اٹھاتا ہے ۔
” کیا مسلہ ہے آتی نہ تنگ کر” وہ جھنجلا کے پوچھتا ہے ۔
“کائرہ کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ۔ ہم سب ہسپتال میں ہیں ۔ بھائی عجیب دیوانوں والی حالت میں ہیں ۔ہم سے سمبھل نہی رہے آپ آجائیں آپ اُن کو سنبھال لیں گے “۔
“میں کسی کا کیئر ٹیکر نہیں ہوں ۔ بند کرو فون ۔”  وہ اچانک بھڑک اٹھا۔

“ان کو کیا  ہوا ۔ کیا ان کی کوئی لڑائی ۔ ایک دوسرے پرجان دیتے ہیں لڑائی کیسے ہوسکتی ہے ۔” وہ خود سے اُلجھتا واپس اندر چلا گیا ۔”
” کیا ہوا ۔ بات ہوئی سالار سے
“داور صاحب اُس کے آتے ہی اُس سے پوچھنے لگے ۔
” جی چاچو ہوگئی ہے ۔ آجاتے ہیں تھوڑی دیر تک ۔”وہ اُنہیں جواب دیتا بنچ پر بیٹھی حدی اور عین کے پاس آتا ہے ۔
“بھائی وہ ٹھیک ہوجائے گی نہ ۔ اُسے کیا ہوا ہے ۔ صبح تک ٹھیک تھی وہ پھر اچانک یہ سب ” عین اس کے بیٹھتے ہی آنسوؤں سے تر چہرہ لیے اُس سے پوچھتی ہے ۔
” ہاں انشاءاللہ دعا کرواُس کیلئے”
“حدی ۔؟؟؟”
وہ کب سے گم سم بیٹھی حدیکہ کو بلاتا ہے ۔مگر وہ تو جیسے سن ہی نہی رہی تھی ۔
ابھی وہ مزید بات کرتا سالار آتا دکھائی دیا ۔ شاید اُسے اس کے آنے کا یقین تھا ۔
وہ سب کو نظر انداز کرتا روم میں جانے لگا جہاں ڈاکٹر اپنا کام کررہے تھے ۔
” اندر نہی جانے دے رہے بھائی”
۔ آتی کی بات سنتے وہ بھی کوریڈور کے ساتھ پشت ٹکا گیا۔ اُس نے ایک دفعہ بھی دارق کو دیکھنے کی غلطی نہی کی تھی ۔

“سالار اسکو کہہ کے ٹھیک ہوجائے پھر نہی ہاتھ اٹھاوں گا اُس پر ”
وہ سالار کے پاس آتا اُسے کہتا ہے۔ اس سے پہلے سالار کچھ جواب دیتا ڈاکٹرز باہر آئے ۔سب اُن کی جانب متوجہ ہوگئے ۔
ڈاکٹر کیسی ہے وہ اب ۔ اُسے کیا ہوا ہے۔ سالار نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی سوال کیا ۔
“اُنہیں مائگرین ہوتا ہے؟؟ “۔ سوال کے بدلے سوال کیا گیا .
سب نے حدی ،عین ، عائش کی طرف دیکھا ۔
“ہمیں نہی پتہ ” ۔ سب کا یکجا جواب آیا ۔
“اُنہیں مائگرین ہوتا ہے ۔ جس سے وہ اپنا آپا کھو دیتی ہیں ۔ یہ ایک خطرناک بات ہے اُن کی زندگی کیلئے ۔ کیوں کے مائگرین کے دوران وہ خود کو بھی نقصان دے سکتی ہیں ۔ ایک حالت آپ کے سامنے ہے ۔ اُنہوں نے اس درد سے بچنے کیلئے کافی مقدار میں گولیاں کھا لی تھی ۔ وہ اُن کی خوش قسمتی ہے کے زیادہ وقت نہیں گزرا اور آپ اُنہیں لے آئیں ۔ اُنہیں ذہنی دباؤ سے دور رکھیں ۔ میںنے دوائیاں نرس کو بتا دیں ہیں اُن سے پوچھ لیجیے گا اور اُن کا خیال رکھیں ۔ ” ڈاکڑ اپنی بات کہتا اپنے کیبن کی طرف چلا گیا ۔
سب اب روم میں جمع اُس کے ہوش میں آنے کے منتظر تھے ۔
اسماء اُس کے  پاس بیٹھی آیتیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھی ۔ ایک طرف حدی لوگ کھڑے تھے ۔  جبکہ اُس کے عین سامنے سالار اور دری کھڑے تھے ۔
۔
اُسے آہستہ آہستہ ہوش آرہا تھا ۔ سب اُس کے پاس ائے۔
” مما ۔ مما ۔”
” ہاں میری جان میں یہیں ہوں ادھر دیکھو ” وہ اُسے خود کی جانب متوجہ کرتی ہیں ۔
” مما مجھے گھر جانا ہے ” وہ اسماء کو دیکھتے ہی اُسے کہتی ہے ۔
” ہاں میری جان ۔ ڈرپ ختم ہوجائے پھر چلتے ہیں ” وہ ڈرپ کی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔
” کیسی ہو کائرہ ” عین اور حدی اُس کے پاس آئے ۔
” ٹھیک ہوں “
” تُم نے گولیاں کیوں کھائیں “اب عین اُس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی اُس کا ہاتھ تھامتے پوچھنے لگی ۔
وہ سر جھکا گئی۔ 
” اچھا کوئی بات نہیں “عین بات بدل دیتی ہے ۔
” سالار بھائی اس کے لیے جُوس لے آئیں ۔ دیکھیں ایک دِن میں کتنی کمزور ہوگئی ہے میری بہن ” حدی سالار کو کہتی اُس کے بالوں میں اُنگلیاں چلاتی ہے ۔ 
“میں جاتا ہوں”  ۔ عائش اُسے دیکھ کر کہتا  باہر جانے لگا ۔
“کیسی ہے میری گڑیا ۔”عاتق اُس کے پاس آتا ہے ۔۔
” میں ٹھیک ہوں “وہ بیزاری سے کہتی سر جھکا گئی ۔
” صرف ٹھیک ” عاتق اُس کے پاس پڑے سٹول پر بیٹھتا ہے جہاں سے تھوڑی دیر پہلے اسماء اٹھ کر باہر گئی ۔
اب کی بار اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ۔
“تمہیں پتہ ہے میں تمہارے لیے پرفیوم لایا تھا ۔ لگتا ہے حدی کو دینا پڑے گا ” وہ حدی کو آنکھ مارتا اُسے کہتا ہے ۔
وہ  باتیں کرتا رہا لیکن جواب ندارد پا کر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا ۔
آہستہ آہستہ سب باہر جہ چکے تھے ۔ کمرے میں صرف سالار دارق اور کائرہ رہ گئے ۔
” سالار تو بھی باہر جا ۔ مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔ ” وہ اُسے کہتا سٹول پر بیٹھا تھا ۔
” کیوں “جواب لمحے سے پہلے کیا گیا ۔
“کیوں کا کیا مطلب بات کرنی ہے تیرے سامنے کروں کیا “وہ اُسے کہتا کائرہ کی طرف مڑا ہی تھا کہ سالار کے جواب پر اُس نے پلٹ کر دوبارہ دیکھا۔ ۔
” ہاں میرے سامنے کر مجھے تُجھ پر بھروسہ نہیں ہے”وہ اُسے کہتا نظریں چرا گیا ۔
” سالار تُجھے مُجھ پر بھروسہ نہیں ہے ” وہ سوال کرتا تلخئ سے مسکرایا ۔
” نہیں”
“مجھے آپ کی کوئی بات نہی سننی چلے جائیں یہاں سے ” وہ درد سے کہتی چلائی تھی ۔
” کائرہ میری بات تو سنو ۔ میں معافی………!
” نہی چاہیے آپ کی معافی چلیں جائیں آپ کو دیکھ دیکھ میرا دماغ کی رگیں درد کررہی ہیں”وہ غصے اور درد سے چلاتی پیچھے پشت ٹکا گئی۔ “
تمہیں مجھے دیکھنے سے درد ہوتا ہے ۔ میرا تمہارے سامنے آنا تمہیں تکلیف دیتا ہے ” وہ قرب سے آنکھیں میچتے سوال کرنے لگا ۔
” ہاں ہوتی ہے تکلیف ”  وہ  سر اٹھاتی چیخ کر کہتی ہے
اُس کی بات سنتے ہی وہ کمرے سے نکل گیا ۔
” کائرہ ” ۔
سالار اُس کی حالت سے تڑپ کر اُس کے پاس آیا ۔
” تُم ٹھیک ہو “وہ اُس کا چہرہ تھامتے پوچھنے لگا ۔
” ہاں بھائی ” وہ ہاں میں سر ہلا گئی ۔
” بھائی نہی ہوں میں تمہارا “وہ تڑپ کر کہتا باہر نکل گیا ۔

“دری کہاں جا رہے ہو؟”اُس کے باہر نکلتے ہی دلاور صاحب نے پوچھا مگر وہ سب کو نظر انداز کرتا وہاں سے نکل گیا ۔
سالار جو ابھی باہر نکلا اب دلاور صاحب اُسے دیکھ رہے تھے ۔
” اُسکو کیا ہوا ہے سالار  “
” آپ کا بیٹا ہے آپکو پتہ ہو ۔مُجھ سے کیا پوچھ رہے ہیں”وہ تلخ لہجے میں جواب دیتا باہر نکل گیا ۔ ۔
۔
” ان دونوں کو ہوا کیا ہے ۔ ایک خاموش ہے تو دوسرا آگ نکال رہا ہے منہ سے ۔ ۔”داور صاحب کہتے بنچ پر جا بیٹھے ۔
۔

” آرام سے کائرہ ۔ ابھی تُم مکمل ٹھیک نہی ہو ۔ تُم آرام کرو ۔ میں تھوڑی دیر میں تمہارے لیے کھانا بھیجتی ہوں ۔” اسماء اُسے کہتی اُسے اُس کے کمرے میں چھوڑ کر گئی ۔
” جی “۔  وہ جواب دیتی بیڈ کراؤن سے سر ٹکا گئی۔ 
” بھائی نہیں ھوں میں تمہارا “
تمہیں پتہ ہے کائرہ ۔ تمہاری حالت دیکھ کر بھائی مرنے والے ہوگئے تھے ۔بلکل پاگل دیوانے ہمیں تو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ تمہارے لیے ایسا کر رہے تھے ۔کہاں صبح غُصہ کہاں ابھی جنون ۔ ایسے لگ تھا بیہوش تُم ہو مگر سانسیں کوئی اُن کی کھینچ رہا ہو۔  کوئی اور موقع ہوتا تو میں اُنہیں تنگ کرتی “۔
” بھائی نہیں ھوں میں تمہارا “
” تمہیں پتہ ہے کائرہ ۔ تمہاری حالت دیکھ کر بھائی مرنے والے ہوگئے تھے ۔بلکل پاگل دیوانے ہمیں تو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ تمہارے لیے ایسا کر رہے تھے ۔کہاں صبح غُصہ کہاں ابھی جنون ۔ ایسے لگ تھا بیہوش تُم ہو مگر سانسیں کوئی اُن کی کھینچ رہا ہو۔  کوئی اور موقع ہوتا تو میں اُنہیں تنگ کرتی “۔

” بھائی نہیں ھوں میں تمہارا “
“تمہیں پتہ ہے کائرہ ۔ تمہاری حالت دیکھ کر بھائی مرنے والے ہوگئے تھے ۔بلکل پاگل دیوانے ہمیں تو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ تمہارے لیے ایسا کر رہے تھے ۔کہاں صبح غُصہ کہاں ابھی جنون ۔ ایسے لگ تھا بیہوش تُم ہو مگر سانسیں کوئی اُن کی کھینچ رہا ہو۔  کوئی اور موقع ہوتا تو میں اُنہیں تنگ کرتی “۔

” بھائی نہیں ھوں میں تمہارا “

“تمہیں پتہ ہے کائرہ ۔ تمہاری حالت دیکھ کر بھائی مرنے والے ہوگئے تھے ۔بلکل پاگل دیوانے ہمیں تو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ تمہارے لیے ایسا کر رہے تھے ۔کہاں صبح غُصہ کہاں ابھی جنون ۔ ایسے لگ تھا بیہوش تُم ہو مگر سانسیں کوئی اُن کی کھینچ رہا ہو۔  کوئی اور موقع ہوتا تو میں اُنہیں تنگ کرتی “۔
کائرہ کے گھر آنے کے بعد عین کے بتائے الفاظ  ، سالار کے الفاظ اُس کے کانوں میں گونج رہے تھے اُس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے ۔
آاااااہ۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے زور سے چیخی ۔
وہ اُن باتوں سے نکلنے والے مطلب سوچنا ہی نہی چاہتی تھی ۔
” کیا ہوا کائرہ ” عاتق جو کمرے کے پاس سے گزر رہا تھا اُس کی چیخ سن کے کمرے میں آیا ۔
وہ اُسے دیکھتے ہی بیہوش ہوگئی ۔
” کائرہ،  کائرہ “وہ اُس کے گال تھپتھپاتا اُسے آوازیں دینے لگا ۔
“امی ۔ امی ۔ پھوپو ۔۔ بابا ۔ کوئی ہے ”
وہ اس کے چہرے پر پانی چّھرکتا
باقی گھر والوں کو آواز دینے لگا ۔ ۔

اُسے ہوش میں آئے گھنٹہ ہوچکا تھا ۔ مگر کسی نے اُس سے کوئی سوال نہ کیا ۔
امی میں باہر جا رہا ہوں کام ہے تھوڑا سا ۔ اور آپ سب بھی اسے آرام کرنے دیں حدی اور عین اس کے پاس ہی رہیں  ۔ باقی اپنے کام کریں ۔
وہ سب کو کہتا باہر نکل گیا۔  جبکہ اُس کے پیچھے باقی سب بھی نکل گئے ۔

(امریکہ)
“اوئے یہاں کیا کر رہا ہے تو اور عاتق کہاں ہے “۔ وہ جو سڑک کے کنارے پر بیٹھا تھا۔ کامران اُس کے پاس آیا ۔
“عاتق پاکستان چلا گیا ہے ” وہ نظریں جھکائے اُسے جواب دیتا ہے
” تو کیوں نہیں گیا” وہ اُس کو دیکھتے سوال کرتا ہے کیوں کے عاتق اور رائد ہمیشہ ایک ساتھ ہی پائے جاتے تھے ۔

“کیسے جاتا ۔ کیسے اُس کے سامنے ہوتے ہوئے اُسے کسی اور کیلئے چھوڑ دوں ۔ ي دل بغاوت کرتا اور میں اپنے جگری یار سے بیوفا ہوجاتا  ” وہ دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے اُسے کہتا ہے ۔
” رائد ایک بات کہوں”وہ اُس کی بات کو سنتا اُس کے اور قریب ہوا ۔ جبکہ رائد نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔
” دیکھ میں حقیقت تو نہی جانتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ آتی حدیکہ کو محبت نہی کرتا اُس کی آنکھوں میں کبھی میںنے اُس کیلئے کوئی جذبات نہی دیکھے جب کے تُجھے دیکھ کر کوئی بھی بتا دے کہ تو اُس سے کتنی محبت کرتا ہے غلط فہمی کی دیوار نہ کھڑی کر اگر آتی خود کہے کہ اُسے حدیقہ سے شادی کرنی ہے تو تب بےشک تو پیچھے ہٹ جا لیکن بات تو کر پہلے ۔ پاکستان جا ہوسکتا ہے حدیقہ بھی تُجھے ہی چاہتی ہو ۔قسمت کا کیا پتہ کس پے مہربان ہوجائے ۔ میرے بھائی جا پاکستان بات کر اُس سے ۔ اُس کے دل میں کون ہے یہ معلوم کر”
رائد جو اُس کی باتیں غور سے سن رہا تھا سمجھتے ہوئے اُسے گلے لگا کر اُس کے گال چومتا اُس کا شکریہ ادا کرتا اپنے فلیٹ کے راستے کی طرف بھاگ گیا ۔
“پاگل” جب کے کامران اُس کی حرکت پر مسکراتے اُس کے پیچھے جانے لگا ۔

“مما مجھے بات کرنی ہے آپ سے”
” بولو دری میں کام کررہی ہوں”وہ الماری میں کپڑے رکھتے مصروف انداز میں کہتی ہیں ۔
“مما میری سنے اسے چھوڑیں ادھر آئیں “۔ وہ اُنہیں بیڈ پر لاکر بیٹھاتا ہے ۔
“بولو کیا ہے کس چیز کی جلدی ہے تمھیں جو صبر نہی ہورہا”
“مما مجھے کائرہ سے شادی کرنی ہے ۔ آپ پھوپو سے بات کریں نہ”
وہ اُن کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے ۔
“تُم نے کل جو کیا ہے اس کے بعد وہ اپنی بیٹی دیں گی تمہیں “۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتی بیڈ سے کھڑی ہوگئی ۔
“مما میں مرجاوں گا اُس کے بغیر آپ پھوپو سے بات تو کریں وہ مان جائیں گی ۔ مما میری طرف دیکھیں نہ ” ۔ وہ انا کا مشہور لڑکا اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھا اپنی محبت کی بھیک مانگ رہا تھا ۔
٫دری کیا بطمیزی ہے اوپر اٹھو ۔” “آپ بولیں نہ آپ بات کریں گی پھوپو سے “
” نہیں” وہ اُس کی آنسوں بھری آنکھوں سے چہرہ ہٹا گئیں ۔
” کیوں مما آپ کو ترس نہی آتا مُجھ پر “وہ آپ قدموں سے اٹھ کر اُن کے سامنے آیا۔ 
نور بیگم سے اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر رونا آرہا تھا ۔ وہ بے گناہ ہوتے ہوئے نظریں چرا رہی تھی ۔
” مما بولیں نہ “اب کی بار اُس کے لہجے میں تڑپ تھی ۔
“کیوں کہ کائرہ نے سالار سے شادی کی خواہیش ظاہر کی ہے۔اور کسی کو کوئی عتراض نہی ہے “وہ کہتی بیٹھ گئی ۔
“سالار کو بھی کوئی عتراض نہی ہے” دارق بيقینی سے پوچھنے لگا ۔
“یہ مجھے نہی پتہ ۔ تُمہارے بابا رات کو سب کے سامنے بتا بھی دیں گے اب تم۔جاؤ کائرہ کی پسند کا خیال رکھو اُس کو بھول جاؤ ” وہ ہاتھوں کے پیالے میں اُس کا چہرہ تھامتی کہنے لگی ۔
” مما وہ میری روح میں بستی ہے کیسے بھول جاؤں اُسے اگر آپ کہیں نہ روح نکال دو دری وہ میرے لیے زیادہ آسان ہے مما ۔ آپ سمجھ کیوں نہی کر رہی ۔”
وہ تڑپ کر پیچھے ہٹا تھا ۔

“دری میری جان “۔ وہ آگے بڑھی تھی کے دارق کمرے سے نکل گیا۔
“اے اللہ میرے بیٹے کے حق میں جو اچھا ہے وہ کردے اُسے اس کا سکون دے دے آمین “
۔  وہ آسمان کی طرف دیکھتی دعا کرنے لگی

کائرہ ایک بات پوچھوں ؟؟؟
فون چلاتی عین اُس کی طرف دیکھا ۔
ہاں پوچھو ۔ کائرہ نے آنکھیں بند کئے ہی جواب دے دیا ۔
تُم نے بھائی کی بجائے سالار بھائی کو کیوں پسند کیا ۔ کیا محبت کرتی ہو اُن سے ۔ عین نے موبائل میں مصروف انداز میں سوال کیا ۔
اب کی کائرہ  نے  آنکھیں کھول
کر اُسے دیکھا ۔ اس سے پہلے وہ جواب دیتی جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھلا ۔ ۔
عین باہر جاؤ مجھے بات کرنی ہے کائرہ سے ۔
بھائی آپ یہاں ۔۔۔عین نے اُس کی آواز پر چونک کر دیکھا اور  پوچھ لیا ۔
عین کمرے سے باہر جاؤ ۔اب کی بار وہ چیخ کر بولا ۔ غصےاور درد کو ضبط کرتے اُس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھی ۔
عین ڈر کے مارے باہر نکل گئی ۔ اُس نے پاؤں سے دروازہ بند کیا ۔
وہ لمحے میں اُس تک آیا ۔
وہ ڈر کے دیوار سے جہ لگی ۔
تُم نے سالار سے شادی کا کہا کیسے ۔ جواب دو مجھے ۔ وہ اُس کا بازو تھامتے ہوئے اُس سے پوچھنے لگا ۔
ہاتھ چھوڑیں میرا مجھے درد ہورہاہے  ۔
اور میرے درد اُس کا کیا ۔ تمہیں کسی اور کا سوچ کے ہی میری جان نکل رہی ہے جیسے کسی سے دل کو نوچ کر باہر نکال لیا ہوا ۔ میں بتا رہا ہوں تمہیں بلکہ سمجھا رہا ہوں رات کو منع کرو سب کو ورنہ میرا حق جتانا تمہیں اچھا نہی لگے گا ۔
آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو ۔میں کوئی  کھلونا ہوں جب آپ کا دل کرے گا آپ اپنے پاس رکھ لیں جب دل کی ذلیل کرلیا۔  یتیم ہیں اس لیے  ۔ میں اپنی مرضی سے سانس بھی لے سکتی ہوں یا نہی یا وہ بھی منع ہے ۔
نہ نہ میری جان تُم پریشان نہ ہو میں بہت خوش رکھوں گا تمہیں ۔ کوئی پابندی نہی لگاؤں گا ۔ ڈانٹوں گا بھی نہیں۔  بس سالار سے شادی سے منع کردو ۔
نہی کا مطلب نہی ہوتا ہے ۔ میں مر جاؤں گی آپ کا ساتھ قبول نہیں کروں گی ۔وہ چیختی اُس کو دھکا دیتے اُسے پیچھے کیا اور باہر جانے لگی ۔
تمہارا نکاح مُجھ سے ہی ہوگا لکھ لو اور یاد کرلو ۔میں اپنی کوئی چیز کسی کو نہی دیتا تو تم تو  پھر میرا  عشق ہو ایسے کیسے جانے دوں تمہیں ۔ وہ غصے سے کہتا باہر نکل گیا ۔

کائرہ روتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی ۔
اللہ جی کس مصیبت میں ڈال دیا مجھے نکال دیں  اُس مشکل سے ۔ مجھے سکون دے دے ۔ وہ روتے ہوئے سر جھکا گئی ۔ ۔

قندیل تُم غلط کررہی ہو ۔ یوں سب کے سامنے معافی ، اچھا نہی لگتا یار ۔
میری انسلٹ سب کے سامنے ہوئی تھی ۔ میں کیوں سب کے سامنے معافی نہ منگواؤں ۔
پھر بھی جانے دو وہ شرمندہ ہے ۔
نہی سب کو پتہ چلنا چاہیے کے عاتق درانی قندیل رہبانی سے معافی مانگ رہا ہے ۔ آفٹر آل میں اُسے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرچکی  ہوں ۔
۔
تُم پاگل ہو قندیل ۔
میں جانتی ھوں ڈیئر ۔۔۔

میں عاتق درانی ۔ سب کے سامنے قندیل رہبانی سے معافی مانگوں گا ایسا ان سے وعدہ کیا تھا کیوں کہ میری تربیت بیچ میں آگئی ۔

I am sorry miss qandeel rehbani ۔

It’s ok I forgive you but take care next time to talk to me like that offensive attitude ۔

Ok dear friend ۔۔۔

I am not freind
Ok ۔۔۔۔۔

قندیل،  قندیل !!!!
کیا ہے ۔۔۔
واہ یار تُم نے عاتق درانی جھکا دیا ۔ کیا جادو چلایا ۔ کوئی لالچ وغیرہ تو نہی دیا نہ ۔ ۔
What do you mean??
مطلب یہ کہ کوئی قیمت دی ہے کیا اُسے جھکنے کی ۔۔
پہلی بات نہ وہ بدکردار ہے نہ میں ۔ اور رہی بات قیمت کی تو میری جان قندیل رہبانی اؤچّھے ہٹّکنڈے نہی اپناتی میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابل کو للکارتی ہوں اور سامنے والے کو خود کے دَم پے جھکاتی ہوں ۔ وہ کہتی وہاں سے  چلی گئی ۔ اُسے خود سمجھ نہی آرہا تھا اُسے اتنا برا کیوں لگا ۔

لاؤنج میں سب جمع تھے۔  سالار حیرت سے سب کو دیکھ رہا تھا جسے ابھی یہ بتایا تھا کہ کائرہ نے اُس سے شادی کا کہا ہے ۔ جب  کے دارق  کائرہ کو غصے اور درد سے دیکھ رہا تھا ۔

آپ اپنے فیصلے سے مطمئن ہیں کائرہ ۔ دلاور صاحب نے اُس سے پوچھا۔
جی مامو جان میں نے بہت سوچ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور میں خوش ہوں اس فیصلے سے ۔
ٹھیک ہے ۔ سب کی مرضی کے مطابق ہوا ہے سب کوئی زور زبردستی نہی ہے ۔ اگلے جمه کو نکاح کردیں گے رخصتی کائرہ کی پڑھائی کے بعد انشاءاللہ ۔
جاؤ عین بیٹے مٹھائی لے کر اؤ ۔
دارق اٹھ کر باہر چلا گیا ۔ جب کے سالار کمرے میں  ۔

وہ ایک بجے گھر لوٹا تو سالار جو اُسی کا انتطار کررہا تھا ۔ اُس کے پاس آیا۔ 

کہاں تھا ۔
جہنم میں
کیا ہوگیا دری پاگل ہوگیا کیوں ایسے برتاؤ کررہا ہے ۔
مجھے کیا ہوگیا ہے میں پاگل ہوگیا ہوں ؟؟ ہاں ہوگیا ہوں پاگل ، تو جانتے ہوئے کے میں کائرہ سے عشق کرتا ہوں تو اُس سے شادی کیلئے مان کیسے گیا ۔
جانتا ہُوں مگر تو جانتا ہے کائرہ نے تایا جان سے کیا کہا ہے ۔ میں اگر نہ مانتا تو  تو بھی نہ ہوتا بلکہ تو کیا کائرہ بھی نہ ہوتی ۔
کیا بکواس ہے زبان سمبھال کے ورنہ بھول جاؤں گا دوست ہے تو میرا ۔
بھول ہی تو گیا ہے تو تبھی مُجھ پر بھروسہ نہی شک کررہا ہے تو ۔اور رہی بکواس کی بات تو مامو جان سے خود پوچھ لے ۔ میں ہی پاگل ہوں جو بات کرنے آگیا ۔

بابا جان مجھے بات کرنی ہے آپ سے ۔
دری تُم نے جو بات کرنی ہے اُس کا میرے پاس نہ تو کوئی جواب ہے نہ ہی کوئی حل ۔ اس لیے قسمت کا فیصلہ سمجھ کے قبول کرلو ۔ ۔

آپ  نے کتنی آسانی سے کے دیا  کے کائرہ کو بھول جاؤ ۔ جو چیز میرے اختیار میں ہی نہی ہے اُس کا کیا کروں ۔ خیر میں صرف یہ پوچھنے آیا تھا کے کائرہ نے آپ سے کیا کہا تھا مجھے ایک ایک لفظ جاننا ہے ۔
کیوں خود کو تکلیف دے رہے ہو ۔
بتائیں آپ کو میری قسم ہے ورنہ مرا منہ دیکھیں گے ۔
دری !!!! ایک لڑکی کیلئے تُم مر جاؤ گے ہمارا کیا ہماری کیا اوقات ہے تمہاری نظر میں ۔
وہ تھک ہار کے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔
.
( مامو جان مجھے کچھ کہنا ہے آپ سے ۔
بولو بیٹے کیا بات ہے کچھ چاہئے آپکو ۔
جی ۔ مجھے سالار سے نکاح کرنا ہے ۔
کیا !!! آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہہ رہیں ہیں ۔
جی ۔
شادی مذاق نہی ہے اور نہ ہی چھوٹوں کے کرنے کا فیصلہ ۔ میں اسماء سے بات کروں گا اس بارے میں ۔
مامو میں چھوٹی نہی ہوں ۔ امی کو بتا چکی ہوں آپ کو بھی بتا دیا ہے ۔ اور اگر اپنے اپنے بیٹے سے میری شادی۔  کا سوچا ہے تو میں مرجاؤ گی مگر شادی نہی کروں گی ۔ میں گلی میں چلتے کسی آوارہ سے شادی کرلوں گی مگر دارق درانی سے نہی ۔ اور یہ آخری فیصلہ ہے میرا ۔ زبردستی کرنے کی صورت میں میرا مرا ہوا منہ دیکھیں گے آپ لوگ ۔
مگر بیٹے ۔
اگر مگر میں نہی جانتی ۔ میں فیصلہ سنا چکی ھوں آگے آپ کی مرضی ۔
)
دلاور صاحب نے اپنے اور کائرہ کے درمیان ہوئی بات اُسے بتا دیں ۔

دارق خاموشی سے سنتا اٹھ کر چلا گیا ۔ جب دلاور صاحب ٹھنڈئ اه بھر کے رہ گئے ۔

“کائرہ بھائی صاحب نے کہا ہے کہ سب بچے نکاح کیلئے شاپنگ کرلیں جا کر ۔ میںنے باقیوں کو بتا دیا ہے ۔تُم بھی تیار ہوجاؤ “
اسماء نے آکر اُسے بتایا ۔
“جی امی “

وہ مردہ دل سے اٹھی ۔

سب باہر اُسی کا انتظار کررہے تھے ۔
وہ بلیک جینٹس ٹروائزر کے اوپر ییلو ہڈی ڈال کر نیچے آگئی ۔۔

آرام سے جانا سب ۔ نور بیگم نے سب کو کہا ۔
ٹھیک ہے مما ۔ عاتق کہتا باہر آگیا ۔

عاتق ، عین ،حدیقہ ، عائش  ایک گاڑی میں بیٹھ گئے ۔
عین پیچھے بیٹھو آگے کائرہ بیٹھے گی ۔
بھائی کونسی خوش فہمی میں ہیں ۔ کائرہ اپنی بائک پر آئے گی وہ کار میں کبھی نہی جاتی ۔

جی نہی وہ گاڑی میں جائے گی ۔ بائک لڑکیوں کے چلانے کیلئے نہی ہوتی ۔
بھائی یہی لڑائی دارق بھائی سے بھی تھی اُس کی ۔ انجام دیکھ لیا نہ ۔ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے اس پے زور زبردستی نہی چل سکتی ۔

کائرہ گاڑی میں بیٹھو آجاؤ ۔
کائرہ نے بنا جواب دیے بائک اسٹارٹ کرکے فل سپیڈ سے اُنہیں اوور کراس کیا ۔

یہ کیا تھا ۔۔ عاتق اُس کے اس طرح کرنے پے حیران تھا ۔
یہ کائرہ درانی کا انداز تھا ۔ آپ باہر تھے نہ آہستہ آہستہ سب پتہ چل جائے گا 

کائرہ یہ دیکھو یہ سیٹ کتنا اچھا لگ رہا ہے تُم پر ۔۔۔
مُجھ سے یہ نہی پہنے جاتے تو بہتر ہے سیٹ کی جگہ کوئی نیکلس دیکھو  ۔
ہممم نیکلس کون پہنتا ہے اپنی شادی پر ۔۔
نکاح ۔۔۔
ہاں بھئی وہی ۔۔۔چلو جیسے آپ کی مرضی ہم تو خرید لیں گے ۔۔۔

کائرہ شاپنگ کرلی ہے کچھ کھانے پینے چلیں ۔
نہی تُم لوگ میرے ساتھ نہی آئے تھے سو اُن سے پوچھو جن کے ساتھ تُم نے جانا ہے ۔ کیوں کہ  مجھے اور بھی بہت کام ہیں ۔۔۔
کائرہ …..
حد ہے ویسے ایک بھابی ملی وہ بھی ایسی……..
چل بھئی عین تیری قسمت …..

ہوگئی عزت عین اب چلیں میںنے پہلے ہی کہا تھا مت چھیڑ اُسے ۔  حدی اُس کے پاس آکر کہتی ہے ۔
یہ کوئی تمیز کا مظاہرہ نہی تھا حدی ۔ وہ ہمارے ساتھ آئی تھی اُسے ہمارے ساتھ جانا چاہیے تھا ۔
عاتق بھائی وہ ہمارے ساتھ نہی آئی تھی اور عادت ڈال لیں وہ ایسی ہی ہے ۔

I don’t care whatever she do ……

ایک ہفتے بعد :

ارے لڑکیوں کہاں ہو سب ۔ گھر میں اتنا اندھیرا کیوں مچا رکھا ہے ۔

اچانک گھر میں لائٹ آن ہوتی ہے جو صرف لاؤنج کے دائرے تک ہی تھی ۔
سب لاؤنج میں زمین پر تکیہ بچھائے بیٹھے تھے ۔

ارے یہ کیا ہو رہا ہے نیچے کیوں بیٹھے ہو سب ۔
ارے میری پیاری مما جان آج میرے بھائی سالار کی ڈھولکی ہے ، کل تو اس کا نکاح ہے سادگی سے ہوگا کیا ۔ دری کے بھائی کی شادی ہو اور رونق نہ ہو پھر تو لعنت ہے نہ دری اور سالار کے رشتے پر ۔
تُم لوگ ہے رکھو ڈھولکی ہم تو سونے چلے کافی تھک گئے شاپنگ کر کے  کیوں اسماء ۔
جی بھابی ۔
وہ بھی نم آنکھوں اور آواز سے اپنی بات مکمل کرتا واپس بیٹھ چکا تھا ۔

باقی سب کہاں رہ گئے ہیں بلاؤ سب کو ۔

ہم یہاں ہیں بھائی ۔ ۔ ۔

اب درمیان میں موم بتیوں کی جلتی ہوئیں لو رکھی گئیں ۔ جس سے سب کے چہروں پر روشنی پڑ  رہی تھی ۔
اور سب لو کے گرد دائرے میں بیٹھے تھے ۔

حدی ، عاتق ، دآرق ، عائش ایک طرف تھے ۔ جب کے دوسری طرف کائرہ ، سالار ، اور درین تھے ۔

بولا تو لیا ہے اب کیا کرنا ہے ۔۔

ٹروتھ ڈیئر کھیلتے ہیں ۔
کم آن یار عین پرانی بورنگ گیم ۔

انتاکشری کھیلتے ہیں ۔

حدی یار وہ بتاؤ جو سب کھیلیں کیا لڑکیوں والی گیمز بتا رہی ہو ۔
تو تم بتا دو عائش ۔ ۔ ۔

ڈھولکی میں ویسے تو مزا نہی آئے گا ۔ کیوں نہ گیم کو دلچسپ بنایا جائے ۔۔

وہ کیسے عائش ۔
دیکھیں ۔۔ہم باؤل رکھتے ہیں اُس میں مختلف قسم کی پرچیاں رکھتے ہیں ۔
مطلب ہم سات لوگ ہیں تو ہم سب چار چار پرچیوں پر کچھ بھی  لکھ کر باؤل میں ڈال دیں گے اور ایک ایک کر کے سب کریں گے پھر راؤنڈ ٹو ہوگا 
سب ایک پرچی اٹھائیں اور اُس  پر جو آگیا اُنھیں وہ کرنا پڑے گا ۔ مزا آئے گا اس طرح ۔ 

ٹروتھ ڈیئر ہی ہوگیا ۔

نہی یہ باؤلنگ ہے ٹروتھ ڈیئر نہی ہے ۔

اچھا اچھا کرو جو کرنا ہے ۔۔۔۔

ہوہووووو و و و ۔۔ عاتق بھائی ۔ عاتق بھائی عاتق بھائی ۔
اچھا صبر کرو ۔
بھائی پرچی اٹھائیں ۔

اٹھا رہا ہوں ۔
سونگ ۔۔۔۔۔۔
کونسا گائوں ۔۔۔۔۔
کوئی بھی گا دیں اچھا سا ۔۔۔۔۔

دل دیاں گلاں
کران گے روز روز بہ کے
آکھ نال اکھ نوں ملا کے
دل دیاں گلاں
اے ناراضگی کاغزی ساری تیری
میری سوہنیا سن لے میری ۔
دل۔دیاں گلاں

ارے مجھے قندیل کیوں بار بار یاد آرہی تھی ۔
لگتا ہے آتی تو ابھی بھی انتقام کے بارے میں سوچ رہا ہے ۔ جانے دے شادی انجوائے کر بھائی کی ۔

واہ واہ کیا بات ہے ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا سنگر بھی موجود ہیں اس گھر میں ۔ ۔

ہووو و و و ۔ اب دارق بھائی آپ کی باری ۔۔۔۔۔

اٹھائیں پرچی ۔۔۔۔

شاعری ۔۔۔۔۔
سنائیں پھر جلدی کریں ۔۔۔۔۔

یہ بات سب کو بتانا بھی مشکل ہے

کہ تیرا لوٹ کے آنا بھی مشکل ہے

بتا نہ پاؤ گا شاید کبھی بھی اسکو

کہ اسکو دل سے بھلانا بہت ہی مشکل ہے

خوشی میں کھیلنے والے کو کیا خبر

غموں کا بوجھ اٹھانا  بہت  ہی مشکل ہے

انا بھی تن کے کھڑی درمیان میں ہوتی ہے

گئے ہوؤں کو منانا بہت ہی مشکل ہے

میں تیری راہ میں صدیوں کھڑا رہوں گا مگر

صدائیں دے کہ بلانا بہت ہی مشکل ہے

یہ جس مقام پہ لایا ہے آج عشق مجھے

یہاں سے لوٹ کے جانا بہت ہی مشکل ہے

وہ نم آنکھوں سے شاعری مکمل کرتا ہے ۔ ۔۔۔۔

اب سالار بھائی آپ کی باری ۔۔۔۔۔

پرچی اٹھائیں ۔۔جلدی کریں ۔۔۔۔

کوئی بھی دل کی بات ۔۔۔۔

اوہ ہو و و و و و۔ جلدی جلدی بتائیں کہیں انتظار لمبا نہ ہوجائے۔ ۔۔

کمال ہے نہ یار ، یار کے عشق سے عشق کرنا ، کتنا ازیت دیتا ہے نہ سب ایک طرف جان سے عزیز یار ہے اور دوسری طرف ہاں ہم دونوں کا عشق ۔ میں چھوڑ چکا تھا کائرہ کو مگر کائرہ بدلے میں سب کچھ جیسے چھوڑ چکی ہو۔  اُس نے کیوں میرا انتخاب کیا کیوں اُس نے اپنے ساتھ ہم دونوں کو ازیت سے گزارا ۔۔
لمحے میں کائرہ نے اُس کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔

ابری میری باری ۔۔۔۔
عائش جلدی سے بول پڑا ۔۔۔

اٹھا پرچی جلدی کر ۔

شاعری ۔۔۔۔۔۔

کل خواب میں اُسے دیکھا تو فوراً کہہ اٹھا ۔۔۔۔۔

کل خواب میں اُسے دیکھا تو فوراً
کہہ اٹھا ۔۔۔۔۔

میکپ کر کے آ میں دل دا مریض آں ۔۔۔

دھر فٹے منہ ۔۔۔۔۔اپنی شکل کی ہی  طرح  شاعری سنائی ہے ۔۔۔

اب میں ۔۔۔۔
عین کے بعد میں ٹرن کروں گی ۔

جلدی اٹھاؤ پرچی کیا تلاشی لے رہی ہو ۔۔۔

دیکھنے دو نہ تمہارا کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔

یہ والی ۔۔۔
شکر ہے اٹھا لی ۔۔۔

ہممم ۔۔۔۔

کوئی بھی دل کی بات ۔۔۔۔

ہاں ہاں بولو اب ۔۔۔۔

محبت کرنا ہمارے بس میں نہی ہے لیکن اس محبت سے دور چلے جانا ہمارے بس میں ہے ۔۔۔

واہ کیا بات ہے شاعرہ صاحبہ ۔۔۔

حدی اب تمہاری باری ۔۔۔۔

سونگ ۔۔۔۔۔۔
تیرے ورگا تا ہور کوئی
دسدا نہیں
میں تے لایابڑا دل کتھے
لگدا نہی
تیرے رنگ دا ملیا
ستارہ وے یارا
تیرے عشق ہویا
میں ملنگ سجنا
تو جو نینا تو پلایا
ای شرابی رنگ لایا
تیرے عشق اچ ہوگیا
میں ملنگ سجنا ۔۔۔۔۔۔

میںنے تو دھیرے سے نیندوں کے

سب نے آواز کی سمت دیکھا ۔ وہ آگے قدم بڑھاتا گاتا آرہا تھا ۔
دھاگے سے باندھا ہے خواب کو تیرے
میں نہ جہاں چاہوں نہ آسماں چاہوں
آجا حصے میں تو میرے
تو ڈھنگ چاہتوں کا
میں جیسے کوئی نادانی
مجھے خود سے جوڑ لے تو
میرے یار بات بن جانی
میں رنگ شربتوں کا
تو میٹھے گھاٹ کا پانی ۔۔۔۔

رائد بھائی ۔۔۔۔۔عین بھاگ کر اُس کے گلے لگ گئی ۔ سب باری باری اُس سے ملنے لگے ۔۔۔۔

آؤ بیٹھو ۔۔۔
میری بس میں جا رہی ہوں کمرے میں ۔۔۔
ارے کائرہ بیٹھو نہ کہاں جا رہی ہو میں اتنے دور سے آیا ھوں ۔ تُم اندر چلی گئی تو رونق کیسے ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔

“Beloved’s Love” by Qalam Baloch

 

“Come, let me show you this building, this is the Durani House. Let’s go inside. Here in front of the gate is this porch, and this is the veranda on the side. And from the veranda’s end, there’s the entrance door from where I’m about to enter.” He continued his commentary as he stepped inside.

“Let’s go! After the entrance, there’s a lounge to the right and a kitchen to the left, an open plus closed kitchen.” He points towards the kitchen as he stands in front of it.

“Our elders say that this kitchen was built with great care by Grandma. In front of it, there’s a wall that isn’t exactly in the middle, like a big window, from where the lounge is visible.”

“But even then, you have a little idea,” he says, patting his head. “But still, let me tell you.” He gestures towards the kitchen.

“There’s a small door on its side, and in front of the kitchen is this dining table around which twelve chairs are placed. Ground floor. It has five rooms, one is a store, and the remaining four are for the big personalities of the house. First floor. It has five rooms, four for the smaller folks of the house, and one is their library plus a study room. Top floor. It has five rooms for the middle folks of the house and one study room for them. Now let’s meet the people of the house.”

He rushes towards the upper room after saying this in one breath, looking at Noor Durani sitting in the lounge and then towards the stairs leading to the upper rooms.

“The head of the house, Daler Durani, and Begum Noor, the important political figure. Their eldest son, Darq Durani, wanted to step into politics because of his intelligence, seeing every point double-pointed, but they made him join the police, Assistant Commissioner Ali Sahib. Their younger son, Atiq Durani, a student at the university, a bookworm, and a girl filled with fear.”

He adjusts the camera in front of the mirror, sitting on the bed, busy planning everyone’s schedule.

“Now let’s move towards the other head of the house, Dawar Durani. But Hajra Begum is separated now. They are businessmen, and after the wife, there hasn’t been any change in their life. Their elder son, Salar Durani, went against them and stepped into the business world, and holds an important position. Their younger son, Raed Durani, is silent, serious, and stable against everyone’s wishes.”

After planning each person’s schedule, he takes a breath as if a heavy burden has been lifted from his shoulders.

“The third head of this house. Asma Darani. She became a widow because she was married to Chacha Zad from this house since forever. They didn’t have children for many years, but when they did, they were blessed with twin daughters.”

 

“He always had a stubborn nature. Couldn’t forgive a wrong, and compromising wasn’t his trait.”

 

“And the second Hadika Darani.” Mentioning Hadika softened his facial muscles.

 

“Yes, describing her as the opposite of Kayra would be appropriate. Calm, composed, distant from conflicts, and always yielding to others. Kayra resents her for this.”

 

“She never became a part of their clique. She remained within herself. Not out of pride but out of habit. In this house, only two people are known for their pride, Salar and Darq. The reason being their exceptional beauty, while everyone else was also beautiful, they were different. There’s a charm in their personality that can captivate anyone; if anyone doesn’t get captivated, it’s only Kayra Darani because she was a masterpiece of beauty, and on top of that, she had the allure of her lips. Oh God!” Suddenly, he touched his ears, as if Kayra hearing this would bury him alive.

 

“Now let’s move on to me. I’m Atiq, the uncle’s son of the Darani family. My parents passed away a long time ago, maybe I was too young then. I’ve been raised by my dear aunt (Noor Begum) with the love of my parents. I want to become a wanderer, that’s why I don’t take up any job. Now that the introduction of this house is complete, let’s move on. I’m starving since morning, I’ll grab a bite and then meet you again.”

 

Art Room:

 

There were pictures of the four on one wall. The second wall had a bookshelf with various books and a guitar. The third wall had a glass door that opened to a terrace with three floors and some flower-filled pots. In the middle of the room, there was a round table with four chairs around it, and in front of the wall with pictures, there was a bed. Hadika (on her phone) and Doreen (reading a book) were sitting on the bed, engaged in their respective tasks. While on the side of the bed, Kayra was sitting on the floor, leaning against the bed, and listening to music, and Ayesha was sitting on a chair, watching a movie on her laptop. Suddenly, the servant knocked on the door.

 

“Come in.”

 

“Sir, the gentlemen are calling you upstairs.”

 

“They’re calling, so let’s go.”

 

“We’re coming.”

 

Now, everyone was looking at each other.

 

“Let’s have one last look, then we’ll leave.”

 

Ayesha started getting up.

 

“Let’s go first, then we’ll see who gets the last laugh.”

 

Hadika said, starting to leave.

 

“You called, sir,” Kayra started asking as soon as she entered.

 

“Come in.”

 

Sir glanced at her and then began.

 

“Where did you four go yesterday?”

 

“Uh… sir… we… um… went…”

 

“Speak up.”

 

“One minute, wait, Had… Hadika,” Kayra came in front of her.

 

“Who are you to talk to us like this?”

 

“Kayra.”

 

Asma said to Asmaa in a tone suggesting she should behave herself.

 

“No one will speak now.”

 

She signaled the others to remain silent.

“Who are you to question us like this? This is also our father’s house. It’s not just yours where everyone listens to everything you say. Stay within limits, understood?” She says, looking into his eyes with intensity.

 

“You have no authority here, understand. And yes, this might be your father’s house, but the respect is still for my father, whom I won’t tolerate disrespecting,” he retorts, visibly angry.

 

“Just hold on a minute, Mr. ASP,” she dismisses his tone with a wave. “I wasn’t doing anything wrong there. The crowd gathered because of your quarrel, and someone from that crowd uploaded a video of it. Now tell me, was our respect compromised or not? Respect isn’t just about position; even honorable people have respect, where you all are ahead. You act just like the other girls and wander around dressed like them,” she says, her anger rising as she speaks.

 

“What’s your problem? Whatever I do, it’s my life. I don’t need your permission to breathe,” she starts to leave, but he grabs her arm and turns her towards him.

 

“I’ll deal with you later. Now tell me why you were at the plaza,” he emphasizes on the word ‘plaza.’

 

“I didn’t do anything wrong, take your hands off me,” she responds, her tone defiant. When he releases her, she storms out of the room.

 

The rest also disperses from the scene.

 

She was constantly trying to dial someone’s number, but the network might have been busy. When the third attempt was made, she quickly answered.

 

“Don’t hang up, Salar bhai,” she pleads, her tone pleading.

 

“What is it, Ane (Drine)?” She explains everything that happened today.

 

“She wasn’t opening the door,” she says, her voice filled with worry.

 

“What should I do about this crazy girl?” she asks, frustration evident in her tone. Just now, Drine interrupts, screaming:

 

“But she won’t speak up. Your brother is hers, you know her.” She was showing him the reality.

 

“You can’t handle such a small task with your friend, please,” she says angrily, then starts pleading again.

 

“I’ll see, hang up the phone,” he says, irritated, and the call ends.

 

He picks up the car keys, lifts his coat, and walks out. “Sir, you have a meeting in an hour,” his secretary rushes behind him to inform him.

 

“Cancel it,” he quickly responds, and he leaves in a hurry.

 

“How much attitude they have,” the new receptionist comments.

 

“Why not, they’re from a top-second company. If a business person has good luck, they get their appointment. If they don’t seal the deal today, they won’t care, but the competitor company will sink, which invests in it. It’s a big deal for them,” Abdullah (Salar’s secretary) explains to the receptionist. He heard her, he stepped out.

 

Everywhere there was a crowd, and she was the center of that crowd’s attention. Her proud demeanor had won everyone’s hearts. Today, everyone was gathered around to watch her match too. Even after the match ended, they were still gathered in the ground to talk with her friend. When a boy came to her,

 

“Hi! My name is Usman,” he sits next to them and starts introducing himself.

 

“What should I do?” She responds to his compliments.

 

A few moments later, he starts speaking again.

 

“I watch every match of yours. And who knows, maybe you’ve settled in my heart. I want to marry you,” he says.

 

Hahaha! She laughs, looking at him, whose face had changed color. “Say it again, I didn’t believe it,”

 

“I want to marry you,” he says again. Hahaha! She laughs again, teasing him as the crowd laughs along with her.

 

He had turned red. He might have fallen on the ground if someone hadn’t held him from behind.

 

“Miss Qandeel Rehmani, stay in your place,” he was angry even though he didn’t want to be.

 

“What happened? Why are you so furious?” “What happens with fire, I’ll tell you. If you don’t start asking for alms from life, then say,” he turns her back to him. “You are taking Qandeel Rehmani lightly, but remember, your seven generations will remember me. You didn’t make fun of my friend, you made fun of me, and I won’t forgive anyone even if I have to forgive,” he says, pushing her away.

 

“Go, go, big ones, just wait, you’re mine,” Qandeel says, her tone sharp.

 

“Leave it, it’s a small matter for you. It’s not for me. How did you have the courage to refuse her?” Atiq suddenly gets angry.

 

“Okay, forget it. When did you come from America?” he changes the subject.

 

“I came last night. I stayed in the flight. I’ll go home after meeting you,” he starts telling him about his arrival when he notices Qandeel.

 

“Did you sit here?” he walks towards the table where Qandeel was sitting. This time she wasn’t alone; there were two girl

s and a boy with her. Atiq also followed him.

“An introduction,” he begins to explain.

“Usman, what’s going on?” He changes the topic.

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button