
Y Kessa Saya Hai | Mera Jahan | Romantic Novel | Written By Hina Shahid | Episode 1 Complete
#romanticnovel #mostromanticnovels #urdunovels #hinashahid #famousurdunovels
میرا جہاں رومینٹک ناول
قسط نمبر : 1
تحریر حناء شاہد
ننگے پاؤں سبز مخملی فرش پر چلتی وہ، وقت کی گرفت سے آزاد، لمحوں کے تسلسل کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں سمیٹے، خاموشی سے صبح کی مقدس ساعتوں کا حصہ بن چکی تھی۔ ہوا میں بسی نمی، فضا میں رچا ذکرِ سبحانی، اور مشرق کے افق پر سورج کی ہلکی ہلکی شعاعیں جیسے اس کے اندر ایک نئی توانائی انڈیل رہی تھیں۔ اس کے گہرے سیاہ بال پشت پر کسی آبشار کی طرح بکھرے ہوئے تھے، اور وہ انہی بالوں کے ساۓ میں اپنی سوچوں کے سائے تلاش کر رہی تھی۔
نمازِ فجر کی ادائیگی، قرآنِ پاک کی تلاوت اور پھر یہ خاموش مگر روحانی سیر—یہ سب اس کی زندگی کا ایسا حصہ بن چکے تھے جو اُسے دنیا کی ہر بےچینی سے نکال کر اک عجب سکون کی دنیا میں لے جاتا۔ چاند اب سورج کے سامنے شکست کھا رہا تھا، جیسے خواب حقیقت کے سامنے جھک رہے ہوں۔ وہ یہ منظر روز دیکھتی تھی، مگر ہر بار اُسے یوں لگتا جیسے قدرت اُسے پھر سے جینا سکھا رہی ہو۔
چڑیوں کی مدھم چہچہاہٹ، لان کی گھاس میں شبنم کے ننھے قطرے، درختوں پر جھومتی ٹھنڈی ہوا، اور دل کے نہاں خانوں میں اترتی پرکیف خاموشی — یہ سب کچھ مل کر ایک ایسی صبح کو جنم دے رہے تھے جس کا لمس روح تک اُتر رہا تھا۔
آج نومبر کی دوسری صبح تھی، مگر موسم جیسے آج پہلی بار اپنے بدلنے کا اعلان کر رہا ہو۔ اس کی جلد پر سرسراتی خنکی نے اُسے لمحہ بھر کے لیے چونکا دیا۔ وہ رکی، اپنی شال کو سینے کے گرد لپیٹا اور آسمان کی وسعتوں کو یوں دیکھا جیسے کوئی جواب مانگ رہی ہو۔
وہ ابھی دو قدم ہی اندر آئی تھی کہ ایک مانوس سی خوشبو نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا — لوبان اور گلاب کی ملی جلی مہک، جیسے ہر سانس کے ساتھ بچپن کی یادیں جاگنے لگیں۔ صوفے پر بیٹھیں دائی جان کا پر وقار وجود، ان کی آنکھیں بند، ہونٹوں پر مسلسل حرکت، اور ہاتھوں میں جھولتی تسبیح… ایک لمحے کو لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
دائی جان کے چہرے پر نورانی سکون کی وہ جھلک تھی جو صرف سچّے ذاکر کے چہرے پر اُترتی ہے۔ وہ کچھ پل وہیں ٹھٹک گئی… نہ چاہتے ہوئے بھی دل کی دھڑکنیں سست پڑنے لگیں۔ اس کے قدموں کی چاپ، اس کی جلدی کا شور، سب کچھ اس خاموش ذکر میں دب سا گیا۔ اچانک دائی جان کی پلکیں ہلیں، جیسے اندر کے سکون نے بیرونی شور کو محسوس کر لیا ہو۔
“آ گئی تم؟”
نرمی بھری آواز نے اس کی بےچینی پر مرہم رکھا۔ وہ ایک لمحے کو خاموش رہی۔
انیزہ نے جیسے ہی لاونج میں قدم رکھا، اس کا پاؤں صوفے کے نچلے کنارے سے بری طرح ٹکرا گیا۔ لمحہ بھر کو سب کچھ ٹھہر گیا۔
“آہ۔۔۔!”
ایک چیخ سی نکلی، جو لاونج کے پرسکون ماحول میں بجلی بن کے گونجی۔ اس کے ساتھ ہی وہ لڑکھڑائی، مگر دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچا لیا۔
دائی جان کی بند آنکھیں فوراً کھلیں، تسبیح کے دانے انگلیوں کے بیچ رُک گئے۔
“ہائے میری جان!”
وہ گھبرا کر تقریباً دوڑتی ہوئیں اس کی طرف آئیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی کی گہری لکیریں ابھر آئیں، جیسے ان کی دنیا ہی لرز گئی ہو۔
انیزہ، جو ابھی پاؤں پکڑ کر فرش پر بیٹھ گئی تھی، درد بھری ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی:
“آہ! میرا پاؤں تو جیسے ٹوٹ ہی گیا ہے آج!”
چہرے پر بے پناہ تکلیف کا اظہار، آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلک، اور ہونٹوں پر دبی دبی کراہ… مکمل اداکاری تھی!
دائی جان کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں، اس کے پاؤں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بار بار دیکھنے لگیں،
“ہائے اللہ! کیا ہو گیا ہے میری بچی کو؟ دیکھنے کا بھی ہوش نہیں رہا؟ دھیان سے نہیں چلا جاتا؟”
ان کی آواز میں محبت تھی، فکر تھی، اور خفگی کا ہلکا سا شکوہ بھی۔ وہ پاؤں سہلاتے ہوئے بار بار اس کے چہرے کو دیکھتیں، جیسے اس کے چہرے کا رنگ ان کے دل کی دھڑکن سے جُڑا ہو۔
انیزہ نے دل ہی دل میں ہنسی دبائی، مگر چہرے پر درد کا نقاب برقرار رکھا۔ وہ جانتی تھی، دائی جان کی ممتا اسے اس لمحے رانی بنا دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“مام! مام!”
عاریز کی بلند آواز کمرے میں گونجی، جیسے کوئی ایمرجنسی ہو۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تھا، چہرے پر جھنجھلاہٹ اور پیشانی پر شکنیں۔ کبھی دراز کھولتا، کبھی کیبنٹ کو بند کرتا، جیسے جنگ کے میدان میں کچھ کھو گیا ہو۔
درخشاں بیگم نے دروازہ کھولا اور اندر آتے ہی سیدھا عاریز کے سامنے جا کھڑی ہوئیں، ان کی پیشانی پر خفیف سا سوالیہ تاثر تھا۔
“کیا ہوا ہے عاریز؟”
ان کی آواز میں مامتا کی نرمی تھی، مگر ساتھ ہی پریشانی بھی جھلک رہی تھی۔
“میری ٹائیز کا سیٹ غائب ہے! پورا روم چھان مارا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا!”
وہ جھنجھلا کر بولا اور ہاتھوں سے بے بسی کا اظہار کیا۔
درخشاں بیگم نے اس کی جھنجھلاہٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک خفیف سی مسکراہٹ لبوں پر سجائی اور خاموشی سے الماری کے قریب گئیں۔ فرسٹ ڈرا کھولا، اور چند ہی لمحوں میں مطلوبہ ٹائیز کا سیٹ نکال کر وہ اس کے سامنے کھڑی تھیں۔
“یہ کہاں سے ملا آپ کو؟”
عاریز نے حیرت اور شکستہ لہجے میں پوچھا۔
“وہیں سے ملا جہاں ہمیشہ رکھا ہوتا ہے۔”
درخشاں بیگم نے نرمی سے کہا، ان کی مسکراہٹ اب بھی چہرے پر سجی تھی، جیسے ہر سوال کا جواب صرف ان کے سکون میں چھپا ہو۔
عاریز نے جھک کر گرے کلر کی ٹائی نکالی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مہارت سے ناٹ باندھنے لگا۔ چہرے پر اب اطمینان تھا۔
“اس مسئلے کا ایک بہترین حل ہے میرے پاس!”
درخشاں بیگم نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
عاریز نے چونک کر مام کی طرف دیکھا، جیسے پہلے سے جانتا ہو کہ اب کوئی جذباتی بم گرنے والا ہے۔
“ہاں، مجھے معلوم ہے! آپ کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔”
وہ مسکرایا، مگر اس کی مسکراہٹ میں شرارت بھی تھی اور بےخبری بھی۔
“ماں ہوں نا… اور ماں کے پاس اپنے بچوں کے ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔”
انہوں نے محبت سے اس کے بالوں کو چھوا، جو جیل سے ترتیب دیے گئے تھے۔
“مام! پلیز! اتنی محنت سے بال سیٹ کیے تھے، اور آپ نے سب بگاڑ دیے!”
اس نے مصنوعی خفگی کے ساتھ بال دوبارہ سیدھے کیے اور اب باڈی سپرے اپنے گرد چھڑکنے لگا۔
“اب شادی کر لو، بیٹا! بس بہت ہو گیا، سیٹل سیٹل کا ڈرامہ۔ میں اور تمہارے بابا اب تمہارے بچوں کو گود میں کھیلانا چاہتے ہیں۔”
ان کی آواز میں خواہش تھی، تمنا تھی، ماں کے دل کی سچائی تھی۔
عاریز نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ وہی جملہ… جو بارہا سنا تھا، مگر ہر بار دل کو کسی انجانی الجھن میں مبتلا کر دیتا تھا۔
“مام! پلیز، ابھی بہت دیر ہو گئی ہے۔ آفس میں ایک اہم میٹنگ ہے جو آپ کے شوہر نے خود ارینج کی ہے۔ اب اگر میں مزید لیٹ ہوا تو صبح کی کلاس میں میری باری لگ جائے گی۔”
اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا، مام کو محبت سے گلے لگایا، ان کی پیشانی چومی اور اپنا بیگ کندھے پہ ڈالتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
درخشاں بیگم بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہیں، آنکھوں میں ایک ادھورا خواب لیے۔
“نجانے کب یہ لڑکا سدھرے گا… نجانے کب ہمارے آنگن میں بھی ہنسی کی وہ آوازیں گونجیں گی، جو دل کو زندگی کا احساس دلاتی ہیں۔”
انہوں نے آہ بھری۔ ان کی آنکھیں نم تھیں، مگر لبوں پر پھر بھی مسکراہٹ تھی — ماں کی وہ مسکراہٹ، جو اولاد کی ہر خواہش پر قربان ہو جاتی ہے۔
ایک ہی بیٹا تھا ان کا… لاکھوں دعاؤں کے بعد ملنے والا، ان کی دنیا، ان کا فخر، ان کا “جہاں”… اور وہ ہر پل اسی جہاں کی خوشیوں کے لیے دعا گو تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
“ادھر دکھاؤ مجھے! زیادہ زور سے تو نہیں لگی پاؤں پہ؟”
دائی جان نے تسبیح چھوڑ کر فوراً اس کا پاؤں اپنی جھریوں بھری مگر ممتا سے لبریز ہتھیلیوں میں لے لیا۔ آنکھوں کے گرد نمی تیرنے لگی۔ محبت جیسے انگلیوں سے پھوٹ رہی ہو۔
“کاش یہ درد میں سہہ لیتی، بس تُو سلامت رہے میری بچی۔”
ان کی تھر تھراتی آواز نے ماحول کو کچھ اور بھی سنجیدہ کر دیا۔
اچانک ہی کمرے کے دروازے کی درز سے ایک کرخت آواز ابھری۔
“یہ صبح صبح کیا تماشہ لگا رکھا ہے؟”
نگینہ بیگم، ہمیشہ کی طرح چادر کا پلو کندھے پر جما کر شانِ بےنیازی سے اندر داخل ہوئیں۔ نگاہوں میں سرد مہری، اور لہجے میں زہر گھلا ہوا۔
ان کی آنکھیں جیسے فوراً نانی اور نواسی پر ٹھہر گئیں۔
“ادھر پیار محبت کے نغمے گائے جا رہے ہیں اور گھر کے کام جیسے کسی کی ذمہ داری نہیں!”
“مامی جان، وہ… میرے پاؤں پہ چوٹ لگ گئی تھی…”
انیزہ گھبرا کر بولی، جیسے کوئی چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ اس نے فوراً اپنا پاؤں زمین پر رکھا اور خود کو سنبھالتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ چہرہ ایک دم سپاٹ ہو گیا۔ رنگ جیسے موم کی طرح سفید پڑ گیا ہو۔
اس کی آنکھوں میں چھپی خوفزدہ چمک نے بتا دیا کہ نگینہ بیگم صرف “مامی” نہیں، بلکہ جیسے اس گھر کی بےرحم عدالت ہوں، جہاں جذبات کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔
نگینہ بیگم کی تیز نظریں انیزہ کے جھکے سر پہ جمی رہیں۔
“چوٹ لگ گئی؟ یا پھر آج کا بہانہ یہی طے ہوا تھا کام نہ کرنے کا؟”
فضا میں خاموشی کا ایک بھاری سا غبار چھا گیا۔
دائی جان نے انیزہ کا پاؤں تھامے تھامے آہستگی سے چھوڑ دیا اور آنکھیں جھکا لیں۔ ان کے لب ہلے مگر آواز نہ نکلی۔
“میں ابھی ناشتہ بنا لیتی ہوں مامی جان، آپ فکر نہ کریں۔”
انیزہ نے جھکے ہوئے سر اور بجھی ہوئی آواز میں کہا، جیسے کسی شکست خوردہ سپاہی نے ہتھیار ڈال دیے ہوں۔
“بہتر ہے، ورنہ یہاں ہر روز ایک نیا ڈرامہ ہوتا ہے۔”
نگینہ بیگم نے تیز قدموں سے صوفے پر آ کر بیٹھتے ہوئے ہاتھ سے پنکھا اٹھایا، جیسے وہ نہ آئیں ہوتیں تو یہ چھوٹا سا حادثہ، بغاوت میں بدل جاتا۔
انیزہ آہستہ سے مڑی۔ اس کی نظریں دائی جان سے ملیں۔ ان کے چہرے پر اداسی تھی، لیکن وہ پیار بھرا ایک خفیف سا اشارہ کر گئیں:
“سب برداشت کر لینا بیٹا، وقت بدلتا ہے۔”
۔۔۔۔۔۔۔
رات کا دوسرا پہر، پرانا سا کمرہ، بستر کا ایک کونا۔
باہر تیز ہواؤں کی سائیں سائیں سنائی دے رہی تھی۔ آسمان پر بادل گرج رہے تھے، جیسے کوئی ضبط شدہ دکھ چھت پہ دستک دے رہا ہو۔ کمرے کے ایک کونے میں دبکی ہوئی انیزہ اپنے بستر میں سمٹی ہوئی تھی۔ لحاف کانوں تک لپیٹا، آنکھیں نم، سانس رکی رکی سی۔
کچھ دیر پہلے…
“بس بہت ہو گیا یہ روز روز کی بکواس! نہ اس کے ماں باپ کا کوئی حساب ہے، نہ اس لڑکی کا کوئی رکھ رکھاؤ! دن رات دائی دائی کرتی پھرتی ہے، جیسے یہ گھر اس کے باپ کا ہو!”
نگینہ بیگم کی آواز ٹی وی لاونج سے آ رہی تھی، اور ہر لفظ انیزہ کے کانوں میں زہر بن کر گھل رہا تھا۔
وہ صوفے کے پیچھے کھڑی، خاموشی سے وہ سب کچھ سن رہی تھی جو اس کے وجود کو جھٹلانے کے لیے کافی تھا۔
“اچھا ہوا جو اس کے ماں باپ دنیا سے چلے گئے، ورنہ نہ جانے کیا بنتا اس کا! نجانے کب تک اسے ہم نے پالنا ہے؟”
یہ جملہ آخری تیر تھا۔ انیزہ کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں آنسو لرزنے لگے، اور وہ آہستگی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ قدموں کی چاپ اتنی ہلکی تھی کہ کسی کو سنائی نہ دی۔
اب…
وہ کمرے کے ایک کونے میں سمٹی، اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
دل میں صرف ایک دعا تھی:
“یا اللہ! اگر میری ماں ہوتی، تو کیا وہ بھی مجھے یوں تڑپتا دیکھتی؟”
تبھی دروازہ آہستگی سے کھلا۔
ایک مدھم سی روشنی میں سفید دوپٹہ اوڑھے، دائی جان اندر آئیں۔ ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا اور آنکھوں میں سوال۔
“انیزہ بیٹا…؟”
آواز میں وہی مان، وہی شفقت۔
انیزہ نے آنکھیں پونچھتے ہوئے جلدی سے چہرہ پھیر لیا۔
“تم پھر رو رہی ہو نا؟”
دائی جان نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے، اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
“میری بچی… لوگ کچھ بھی کہیں، لیکن میرے دل کا سکون صرف تم ہو۔ تم میرے لیے اللہ کا دیا وہ تحفہ ہو، جو میری زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔”
انیزہ نے سسکتے ہوئے ان کے بازوؤں کو اور زور سے تھام لیا۔
“مجھے کیوں یوں لگا جیسے میں اضافی ہوں؟ جیسے میں بوجھ ہوں…”
دائی جان نے اس کی پیشانی چومی۔
“تم روشنی ہو میرے گھر کی۔ اگر دنیا اندھی ہو جائے، تو کیا آفتاب اپنی روشنی دینا چھوڑ دیتا ہے؟”
انیزہ نے دھیرے سے سر ہلایا۔
مگر دل کے کسی کونے میں وہ زخم پھر بھی باقی رہا — جو مامی کی زبان سے لگ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کی دھوپ دیواروں سے ٹکرا کر صحن میں بےرحمی سے بکھر رہی تھی۔ انیزہ حسبِ معمول گھر کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ برتن دھوتے ہوئے اس کی نظریں مسلسل فرش پہ جمی تھیں۔ جیسے اپنی سوچوں کی زنجیر میں جکڑی ہو۔
“ارے تمھاری تو رفتار بھی سانپ جیسی ہے! اب تک برتن نہیں دھلے؟”
نگینہ بیگم کا چیختا ہوا لہجہ فضا میں گونجا۔
“جی مامی، بس ابھی آخری پلیٹ بچی ہے۔”
انیزہ نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ دل جیسے پسلیوں سے لپٹ گیا ہو۔
“ہنہ! اور دیکھیے دائی جان کو، جیسے کوئی شہزادی بنا کے رکھا ہوا ہے اسے۔”
اسی لمحے، اوپر والی سیڑھیوں سے ہنستے ہنستے نیچے آتا ہوا شایان دکھائی دیا۔ پرفیوم کی تیز خوشبو، الجھے بال، گلے میں ہیڈفون لٹکا ہوا۔
“ارے ارے ماما، کیوں اتنی تیز آواز نکال رہی ہیں؟ بیچاری انیزہ تو ڈر ہی گئی ہو گی!”
اس نے ایک عجیب سا مسکراہٹ بھرا جملہ کہا، جس میں ہمدردی کم، تماشا زیادہ تھا۔
انیزہ نے ایک نظر اوپر دیکھا اور فوراً نظریں نیچی کر لیں۔ شایان کی نظریں اُس پر جمی تھیں۔ وہ نظر جو انیزہ کو ہمیشہ غیرمحفوظ کر دیتی تھی۔
“امی، میں نیچے آ رہا ہوں، ذرا انیزہ سے پانی تو منگوا دیجیے۔ آج کچھ زیادہ گرمی لگ رہی ہے۔”
“کیا تمھارے ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں؟”
نگینہ بیگم نے تنک کر کہا، مگر پھر خاموش ہو گئیں۔
شایان صوفے پر بیٹھ گیا، ایک ٹانگ دوسری پر رکھے، موبائل پہ نظریں جمائے ہوئے۔ مگر اُس کی نظریں دراصل موبائل سے زیادہ کہیں اور تھیں۔
“انیزہ، پانی لے آؤ۔”
وہ پلٹی، اور دل میں ایک سرد لہر اتری۔
دھیرے سے چلتی، پانی کا گلاس تھامے وہ جیسے ہر قدم پر خود کو سمٹتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ شایان کی نظروں کا بوجھ اس کی روح پر خراش ڈال رہا تھا۔
“شکریہ، پیاری کزن!”
شایان نے سرگوشی نما انداز میں کہا اور اس کے انگلیوں سے گلاس لیتے ہوئے جان بوجھ کر اُس کا ہاتھ چھوا۔
انیزہ کی سانس جیسے تھم گئی۔ اس نے ایک لمحے کو خود کو مضبوط کیا، اور بنا کچھ کہے واپس پلٹ گئی۔
کمرے میں پہنچتے ہی، وہ دروازہ بند کر کے دیوار سے ٹک گئی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
“یا اللہ… یہ کیسا سایہ ہے جو مجھ پر چھانے لگا ہے؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے )