رومینٹک ناول
Trending

عشق یار از قلم بلوچ رائٹس | رومینٹک ناول | #خمار جاں | # زندگی گلزار ہے | # ہمسفر | #فرحت اشتیاق #حناء شاہد

بابا ۔۔۔ بات سنیں نہ ۔۔۔۔  اُس نے فون پر التجا کی ۔۔۔

کیا ہے قندیل ۔۔۔ ایک بار کہہ دیا نہ میں مصروف ہوں نہیں آسکتا۔   مقابل نے اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔

بابا بس ایک دفعہ آجائیں ۔ وہ خوش ہوجائے گا۔ ۔ ہمیں ضرورت ہے آپکی۔

وہ بات بھی نہی کرنا چاہتی تھی مگر اپنے بھائی کیلئے منتیں کررہی تھی ۔

کتنے پیسے چائیے بھجوا دیتا ہُوں۔ ۔
وہ بےحسی کی تمام حدیں پار کرتے کہتے ہیں ۔۔

نہیں چاہیے پیسے آپکے ۔۔ وہ بہت ہیں ہمارے پاس ۔۔۔
وہ غصے میں کہتی فون بند کرتی کہ مقابل کی آواز اُسے مزید طیش دلا گئی ۔

جانتا ہُوں طوائف کی اولاد ہو پیسہ تو ہوگا ۔۔۔پھر مجھے کال کیوں کی ہے ۔

میری ماں طوائف نہی تھی عثمان رہبانی ۔ اوقات اپنی آپ نے دکھائی تھی ۔ دوسری عورت کیلئے میری ماں کو طوائف بنا ڈالا آپ نے ۔۔۔ مجھے یا میرے بھائی کو آپکی یا آپکے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے ۔
وہ غصے میں کہتی ہے ۔۔
جب کے اگلے جملے پر اُس کی آواز میں نمی در آئی ۔
میں ہی بیوقوف تھی جو سب پچھلا بھلا کر کال کر بیٹھی ، جسے یہ لگا بیٹے کی بیماری کا سن کر آپ کے دل میں رحم آجائے گا ۔ مگر میں غلط تھی انسانوں کے سینے میں دل ہوتا ہے حیوانوں کے نہیں ۔۔۔۔۔

میرا بیٹا نہیں ہے وہ ۔ جانے کس کا گندا خوں ہے ۔۔
مقابل کی چیختی آواز فون میں گونجی ۔
زبان سمبھال کر بات کریں میرا بھائی ہے وہ اور میری ذات ہے ، میری رگوں میں دوڑتا خون اُس کی رگوں میں بھی ہے ۔ آپ کے کریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہی ہے ہمیں ۔۔۔ آپ ہمیں معاف کریں اور جو احسان ہر ماہ پیسے دے کر کرتے ہیں نہ نہیں چاہئے ہر بار کی طرح واپس کردوں گی۔    آپ ہمارے لیے ہم آپ کیلئے مر گئے ۔۔کبھی لوٹ کر مت آئیے گا۔ ۔۔۔۔
وہ کہتی فون بند کرگئی ۔۔۔

نہیں آؤں گا ۔۔
عثمان کہتا صوفے پر بیٹھ گیا۔  

مان کون تھا فون پر۔  ساتھ بیٹھی زرین نے سوال کیا۔ 

قندیل ۔۔

اس نے آپ کو فون کیوں کیا۔ 
زرین اب اُس کا ہاتھ تھامے مزید قریب ہوکر بیٹھ گئی۔ 

کہہ رہی تھی اس بدذات ایشان کی طبیعت خراب ہے آکر مل لیں ۔۔۔ وہ اُس کے کندھے تھام کر اُسے بتاتا ہے ۔

تو آپ کیوں جائیں گے؟  آج کیوں یاد کیا اُس نے؟  آپ کو برسوں پہلے جب اُس کی ماں اُسے لیکر جا رہی تھی اُس گھٹیا جگہ میں نے روکا اُسے کہ بچی دے دو مجھے۔  اس کا اُس جگہ جانا سہی نہی ہے اُس وقت تو اس نے بھی ماں کا ساتھ دیا تھا۔  آج باپ یاد آگیا۔  نجانے یہ بھی آپ کی اولاد ہے یا نہیں ۔ ہوسکتا ہے جانے سے پہلے بھی کسی سے ۔ توبہ توبہ ہمیں بولتے شرم آتی ہے اُس نے کر دکھایا ۔ آپ نہی جائیں گے آپ کو میری قسم ۔ ۔۔۔ اُس نے اُس کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر اُسے قسم دی
نہیں جاؤں گا ۔۔ وہ مسکرا کر کہتا اُسے اپنے ساتھ لگا گیا ۔

اس کی ماں مر گئی ہے نہ تو ان سے بھی رشتہِ ختم کردیں۔ وہ پھر اپنا آپ چھوڑاتی اُسے کہنے لگی ۔
اچھا بابا نہی جاؤں گا کہیں بھی یہ بتائیں ۔ عُشنا کہاں ہے ۔ وہ اُسے تسلی دیتا اپنی بیٹی کا پوچھتا ہے ۔

یہیں کہیں ہوگی۔  وہ بیزار سے کہتی دوبارہ دور ہوکر بیٹھ گئی۔ 

کیا مطلب یہی کہیں ہوگی ۔ بیٹی ہے اُس پے نظر رکھا کریں اور اُسے وقت دیا کریں۔  میں ذرا میٹنگ میں جا رہا ہوں ۔

ارے آپ کی بھی تو بیٹی ہے آپ بھی وقت دیں کیا ساری ذمے داری میری ہے ۔۔۔  وہ جواب دیتی کمرے میں چلی گئی ۔۔

کیا ہوگا اس کا ۔خیر جانے دو ۔ عشنا بڑی ہوگئی ہے اپنا دھیان خود رکھ سکتی ہے ۔۔۔

عشنا آہستہ چلاؤ ۔۔
گاڑی کی سپیڈ دیکھ کر حرم نے اسے سمجھانا چاہا ۔۔
تُم نے ڈرنک کی ہوئی ہے ۔۔۔وہ پھر بولی ۔
عشنا ۔۔۔
سٹاپ اٹ یار حرم ۔۔ وہ اُسے ہاتھ مارتی لڑکھراتی آواز میں بولی ۔

عشنا کار روکو ۔۔۔
عشنا ۔۔
ابھی وہ گاڑی روکتی گاڑی کسی سے زور سے ٹکرائی تھی ۔۔

ابے اندھے ہو کیا۔    ۔  ۔ عشنا سر باہر نکال کر چیخی ۔

عشنا ہماری غلطی تھی ۔۔ تُم ڈرنک اینڈ ڈرائیو کررہی تھی ۔۔۔۔
حرم اُسے اندر کرکے سمجھاتی ہے ۔

آپ باہر آئیں گی پلیز ۔۔۔
مقابل نے  بونٹ پر تھپکی مار کر اُسے باہر بلایا ۔۔۔

هہہہاں بولو۔  ۔۔ وہ لڑکھراتی باہر آکر اُسے کہتی ہے ۔
۔دیکھیں اس نے ڈرنک کرلی جس کی وجہ سے ٹکر ہوگئی سوری ہاں ۔۔۔
حرم باہر آکر کہتی ہے ۔۔۔

ڈرنک اینڈ ڈرائیو کے کیس میں اندر دلواؤں اسے ۔۔۔

ابے ہو ککون تتُم ۔۔۔۔ مممیں تتمہیں بتاؤں ممممیں کککون ہُوں ۔
وہ تھوڑا قریب آکر بولتی ہے۔  
دور رہ کر بات کرو ۔۔۔۔۔ بدبو دیکھو اپنے منہ سے ۔۔ جانے کیوں حرام منہ لگاتے ہیں لوگ۔  
وہ اُس کو کہتا پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا۔  

ممیرا نام نہ عشنا عثمان رہبانی ہے ۔۔

تُم قندیل کی بہن ہو ۔۔۔

بہن نہی ہے میری ۔۔۔ میں اکیلی بہن ہوں ۔ میرا کوئی بہن بھائی نہی ہے میں اِکلوتی ہوں ۔۔۔ وہ ایک دفعہ پھر لڑکھرآتی اُس پر گری تھی ۔۔

دور رہو مُجھ سے ۔۔۔
وہ اُسے پیچھے کرتا جانے لگا ۔۔۔

اگر پتہ ہوتا ڈرنک کر کے چلا ہے گاڑی ہی نہ روکتا ۔۔۔کیسے ماں باپ ہیں پیدا کرکے چھوڑ دی ۔۔

بہن نہی ہے وہ میری ۔۔ میری ماں کی سوتن کی بیٹی ہے ۔۔۔عشنا اب تک پیچھے سے آوازیں لگا رہی تھی ۔۔

سوتن کی بیٹی ۔۔ وہ پیچھے دیکھتا ہے ۔ تب تک حرم گاڑی سے اُسے کراس کرتی جا چکی تھی ۔۔ ۔

عین ۔ بات سنو ۔۔ ایک کام کرو گی ۔

حدیقہ اُس کے کمرے کے دروازے پر کھڑی اُسے بلاتی ہے ۔

بولو حدی ۔۔

ایک کپ چائے بنا دو  ۔۔ وہ کہتی اُس کے پاس آتی ہے ۔

اچھا ۔ بنا دیتی ہوں ۔۔۔

قندیل !  قندیل ! قندیل ! کہاں ہو  فون اٹھاؤ ۔۔  وہ مسلسل اُس کا نمبر ٹرائے کررہی تھی ۔۔
رنگ رنگ رنگ رنگ…….
وہ نہا کر آئی تو فون بجتا دیکھ کر اُس نے فون اٹھایا ۔

کیا ہوا ہے سمن ۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے نہ ۔۔ ایشو کیسا ہے ۔۔۔
سمن کی کال سنتے ہی اُس نے پوچھا ۔
وہ شان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے جلدی ہسپتال آؤ ۔۔سمن ہڑبڑا کر کہتی ہے ۔
زیادہ خراب ہے ۔۔ قندیل حواس باختہ پوچھنے لگی ۔
تُم آؤ نہ جلدی یار ۔۔۔ سمن اُسے جواب دیے بغیر آنے کا کہتی ہے ۔
آرہی ھوں ۔ وہ کہتی باہر کی جانب بھاگتی ہے ۔
۔

کس قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک کی اکڑ ختم نہی ہوتی تو دوسری نشے کرتی ہے ۔ عجیب باپ ہے ان کا ۔ خیر عاتق تُجھے کیا تیری کونسی بیوی ہے جو تو فکر میں گھلا جا رہا ہے ۔ وہ خود سے باتیں کرتا گاڑی چلا رہا تھا جب کوئی اُسکی گاڑی کے سامنے آگیا ۔
اب کون ہے یار۔  عاتق باہر نکلتا ہے ۔

دیکھو مجھے ہسپتال جانا ہے میرا بھائی بیمار ہے میری گاڑی خراب ہوگئی ہے پلیز میری مدد کرو ۔ قندیل ہانپتی اُسے کہنے لگی ۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے بہن حرام کو منہ لگائے گھوم رہی تھی ۔ مطلب شراب کیلئے پیسے ہیں تمھارے باپ کے پاس لیکن گاڑی ٹھیک کروانے کیلئے نہی ہیں ۔
میری نہ تو کوئی بہن ہے نہ ہی کوئی باپ ۔ مدد کرنی ہے تو کرو ورنہ اپنا راستہ ناپو ۔وہ غصے سے کہتی جانے لگی جب عاتق نے اُسکی کلائی پکڑ کے اُسے اپنی جانب کھینچا۔ وہ ایک دوسرے  کے سینے سے جا ٹکرائے ۔

بھائی بیمار ہے لیکن اکڑ ختم نہی ہوئی ۔ بیٹھو گاڑی میں ۔ وہ اُسے کہتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔

آگے بیٹھو محترمہ ڈرائیور نہی ہوں آپکا میں ۔ وہ اُسے پیچھے بیٹھتا دیکھ کہنے لگا ۔

گاڑی منزل کی جانب رواں تھی ۔
کونسا ہاسپٹل ۔ وہ گاڑی چلاتا اُسے پوچھنے لگا ۔
وہ اُسے راستہ بتا کر باہر دیکھنے لگی ۔

آجاؤ ۔ وہ اُسے باہر نکلنے کہا کہتا ہے ۔

تم کہاں ۔ وہ اسے اپنے پیچھے آتے دیکھ پوچھنے لگی ۔
مس قندیل میرے گھر کی روایت ہے بیمار پرسی کرنا بس وہی کرنے آرہا ہو ں آخر کو میں نے لفٹ دی ہے تمہیں ۔ وہ جتاتا آگے جانے لگا ۔

یہاں نہ روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ایڈمٹ ہوتے ہیں تُم سب کو دیکھنے آتے ہو ۔ وہ اُسے دیکھتی جتانے لگی ۔
  لگتا ہے تمہیں اپنے بھائی کو دیکھنے کی جلدی نہی ہے تبھی ہر دو منٹ بعد لڑنے لگ جاتی ہو ۔وہ اُسے کہتا جانے لگا ۔ اب کی بار قندیل اُس کے پیچھے چلنے لگی ۔

سمن بتاؤ کیسا ہے وہ اُسے کیا ہوا ۔ کل جب میں اُس سے ملی تھی تو وہ ٹھیک تھا اچانک پھر ۔۔وہ بات مکمل نہیں کرسکی اور رونے لگ گئی ۔

رو تو نہی یار ایشو ٹھیک ہوجائے گا۔ سمن اُسے گلے لگائے کہتی ہے ۔

ڈاکٹر کہہ رہے ہیں اُس کا آپریشن کروانا پڑے گا ۔ اُس کا ٹیومر دن با دن بڑھتا جا رہا ہے جو اس کی جان کے لیے خطرہ ہے اور تکلیف کا تو اندازہ بھی نہی ہے کہ کتنی ہو ۔ سمن نے اُسے بینچ پر بٹھا کر بتایا ۔

میں کیا کروں میں نے بابا کو کال کی تھی کہ وہ ایک بار ایشو سے مل لیں آکر مگر اُنہیں تو اپنی دولت کے خمار اور اپنی دوسری بیوی بیٹی سے فرصت ملے تو آئیں ۔ ۔ہمیں اُن کی ضرورت نہی ہے ۔نہ ہی ان کے پیسے کی ۔ کیوں ایشو نے مما کی ڈائری پڑھ لی کیوں اُس کو عثمان رہبانی کا پتہ چلا نہ وہ جانتا نہ وہ ضد کرتا ۔
وہ کہتی رونے لگی ۔

ڈاکٹر کیسا ہے وہ ۔
باہر آتے ڈاکٹر کو دیکھ کر وہ پوچھنے لگی ۔

اُنہیں خون کی ضرورت ہے اُس کا بندوبست کریں اور آپریشن کا فورم فل کردیں ۔
ڈاکٹر کہتا چلا گیا ۔
سمن پچھلی بار خون بہت مشکل سے ملا تھا اب کیا کروں وہ ہانپتی پوچھنے لگی ۔

بلڈ گروپ کیا ہے اسکا ۔ اُن کی باتوں میں پہلی بار عاتق بولا ۔
او نیگیٹیو ۔
سمن نے بتایا۔ 
خون کا بندوبست ہوگیا ہے تُم فورم فل کرو ۔ میں بلواتا ہوں وہ آکر خون دے دے
قندیل نے اُس کی جانب دیکھا ۔۔
ایسے مت دیکھو میرے بھی بھائی ہیں تکلیف کا اندازہ کر ہی سکتا ہوں ۔ اور میں بھی تو انسان ہی ھوں نہ ۔ تُم فورم فل کرو میں آتا ہوں ۔

اس کے جانے کے بعد وہ کاؤنٹر کی طرف چلی گئی ۔

رنگ رنگ رنگ ۔۔
ہیلو کون ۔۔ کس سے بات کرنی ہے ۔۔ مقابل کی نیند سے بھری آواز فون میں گونجی ۔
آپ سے ہی بات کرنی ہے ۔ اٹھیں منہ ہاتھ دھو کر ایک ایڈریس سنڈ کیا ہے اُدھر پہنچیں ۔

اچھا ۔۔۔

یہ تو ہسپتال کا ایڈریس ہے عاتق وہاں کیا کر رہا ہے ۔ میں کس کے ساتھ جاؤں اب ۔ حدیقہ خود سے باتیں کرتی نیچے آرہی تھی ۔
رائد تُم فارغ ہو ۔ سامنے رائد کو بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔
نہیں ویسے تو میں اپلائی کررہا تھا مگر تُم بولو کیا بات ہے۔ 
میںنے ہسپتال جانا ہے ۔ وہ مجھے نہ۔ ابھی حدیقہ بولتی وہ لمہی اُس کے مقابل آیا ۔
وہ اُس کی پیشانی کبھی ہاتھ چھونے لگا ۔
کیا کررہے ہو ۔حدیقہ اُس کی حرکت پر اُسے پوچھنے لگا ۔ ۔
بخار چیک کررہا ہُوں ۔وہ جواب دیتا پھر سے پیشانی  کو چھونے لگا ۔
مجھے بخار نہی ہے رائد ۔ وہ اُسے پیچھے کرتی جواب دینے لگی ۔
پھر ہسپتال کیوں جانا ہے ۔ وہ سوال کرنے لگا ۔
بات پوری سن لیتے پہلے ۔ عاتق کا فون آیا تھا اُس نے بلایا ہے ۔۔بولو میرے ساتھ آؤ گے ۔
وہ ٹھیک ہے نہ اُسے کیا ہوا ہے ۔ رائد نے حواس باختہ پوچھا ۔
اس کی آواز سے وہ ٹھیک ہی لگا مجھے ۔ تُم آرہے ہو میرے ساتھ ۔ وہ جواب دیتی اُس سے پوچھنے لگی ۔

ہاں چلو ۔ وہ کہتا باہر چل پڑا ۔

کہاں ہے وہ کس کو بلایا ہے کب آئے گا ۔ اُس کی حالت بگڑ رہی ہے۔  قندیل نے روتے ہوئے اُسے کہا۔ 

آجاتی ہے رونا بند کرو ۔ وہ اُسے خود سے لگائے خاموش کروانے لگا ۔ اُسے نجانے کیوں اُس کے آنسو تکلیف دے رہے تھے ۔

عاتق تو ٹھیک ہے نہ۔  رائد لمحے میں اُسے لگے لگاتے پوچھنے لگا۔
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔ یہ قندیل ہے اس کے بھائی کو برین ٹیومر ہے اُسے خون کی ضرورت ہے تو حدیقہ کا بلڈ گروپ میچ ہوتا ہے اسلئے اسے بلایا ہے ۔ عاتق نے اُن دونوں کو بتایا ۔
بلڈ دینا ہے یعنی انجکشن لگے گا ، انجکشن مطلب درد ہوگا ،اور درد حدیقہ کو ہوگا نہی نہی میں بلڈ نہی دوں گی حدیقہ اچھل پڑی۔ 
حدیقہ کسی کی زندگی کا سوال ہے عاتق اُس کے مقابل آیا ۔
میں انجکشن نہی لگواوں گی کوئی اور طریقہ بتاؤ ۔ حدیقہ کی سوئی وہی اٹک گئی۔ 
اور کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آپشن ۔ کسی کی زندگی سے زیادہ تمھارا درد زیادہ نہی ہے وہ پندرہ سال کا لڑکا تکلیف سے گزر رہا ہے تُم ضد کرتی رہو ۔ عاتق بھڑک اٹھا۔
عاتق م جاتا ہوں اسکے ساتھ ہم خون دیتے ہیں کہاں دینا ہے۔  ۔۔

وہاں ۔ اس طرف ۔ سمن نے اشارہ کیا ۔

آجاؤ ۔ رائد نے حدیقہ کے گرد باہیں پھیلائیں۔
درد ہوگا ۔ حدیقہ نے روتے ہوئے اُسے پوچھا ۔
ہوگا تو سہی مگر میں ہوں نہ آجاؤ ۔ و اُسے دلاسہ دیتے لے جانے لگا۔  ۔

وہ انجکشن لگواتی رائد کو پکڑ کر بیٹھی رہی ۔

انجکشن لگوا کے وہ لوگ باہر ائے ۔

کتنا خون ضائع ہوگیا تمھارا ۔ عاتق نے آتے ہی طنز کیا۔  کیوں کے اس کے رونے کی آوازیں باہر تک آرہی تھی ۔

اس نے رائد کی جانب دیکھا ۔
عاتق بس کر نہی کرسکتی تھی مگر کیا اُس نے ۔ خون دے دیا ہے اُس نے میں اسے گھر لے کر جا رہا ہوں تو بھی آجانا ۔ وہ عاتق سے کہتا حدیقہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا۔

دیکھو ، آپریشن کچھ دیر میں شروع ہوجائے گا ۔ تو تُم تب تک گھر سے کوئی ضروری سامان لانا چاہتی ہو تو میں ساتھ آجاؤ لے آتے ہیں ۔ عاتق اُن دونوں کے جانے کے بعد اُس تک آیا ۔

نہیں بس کافی ہے اتنا کردیا تُم جاؤ شکریہ ۔ وہ کہتی دوبارہ اندر دیکھنے کی کوشش کرتی ہے ۔

وہ ٹھیک کہہ رہی ہے ہم کرلیں گے آپ جائیں ۔ سمن اُسے کہتی ہے ۔
ٹھیک ہے لیکن یہ میرا نمبر ہے اگر ضرورت ہو تو کال کرلینا ۔ وہ سمن کو اپنا نمبر دیتا باہر نکل گیا ۔ ۔۔

صبح کے تقریباً چار بج چکے تھے ۔جب وہ گھر میں داخل ہوا ۔
کہاں تھے تُم ۔ نور بیگم نے اُسے دیکھ کر پوچھا۔ 
امی وہ میں ایک دوست کے ساتھ ہسپتال میں تھا اُس کا بھائی بیمار تھا  ۔ عاتق نے بڑی صفائی سے قندیل کی پہچان چھپا کر سچ بتا دیا۔

ٹھیک ہے اگر کوئی مسلہ ہو یا لیٹ آنا ہو تو گھر والوں کو بھی خبر کردیا کرو کیوں کہ  تمہارے ہی گھر والے ہیں اُن کا بھی حق  ہے تمہیں پتہ ہے میں اور تمھارے بابا سوئے نہی ہیں رات بھر اور تمھارا فون بھی بند تھا ۔ نور نے بات جاننے کے بعد اُس کو جھاڑ پلادی ۔
فون بند ہوگیا تھا اور بابا تو آپکی وجہ سے جاگیں ہونگیں کیوں کے اپنی بیوی کی اُداسی دیکھی نہی جاتی ان سے ۔ وہ کہتا جلدی سے کمرے کی اور بھاگ گیا ۔

نور بیگم نہ میں سر ہلاتی نماز پڑھنے جا چکی تھی ۔ ۔

سالار مجھے بات کرنی ہے ۔ دارق لڑکھڑاتا سالار کے کیبن کے اندر داخل ہوا ۔
دری ۔۔ کیا ہوا ہے کیا حالت بنا رکھی ہے تو نے ۔ وہ اُسے تھامتے بٹھانے لگا ۔

میں ہار گیا سالار ۔ میں مرجاوں گا ۔ مجھے میرا عشق بھیک میں دے دے ۔
دارق دلاور درانی تُجھ سے کائرہ درانی کی محبت کی بھیک مانگتا ہے ۔ سالار میری محبت مجھے لوٹا دے تیرا ظرف بہت بڑا ہے تو رہ لے گا لیکن دارق مر جائے گا۔  وہ اُس کے قدموں میں بیٹھا بچوں کی طرح بلک رہا تھا ۔ ایک دیوانہ تھا جو اپنی محبت کی بھیک اُس کے شوہر سے مانگ رہا تھا ۔
لمحے میں سالار تڑپا تھا۔  اس نے کب چاہا تھا دارق کو روتا چھوڑ کر کائرہ کو پا لینا ۔
۔ جا سالار نے دری کو اُس کے حصے کی خوشیاں دے دی ۔ تُجھ سے بڑھ کر کچھ نہی ہے ۔ کچھ بھی نہیں کائرہ بھی نہی ۔
سالار جانتا تھا اُس نے کس طرح لفظ ادا کیے ۔
مگر تو جب تک اُس گھر میں ہوگا یہ آس پاس ہوگا کائرہ مجھے کبھی نہی ملے گی ۔تو ایسا نہی کرسکتا آج رات تو گھر نہ آئے ۔
دارق اُسکو کہتا  گلے لگتا باہر نکل گیا ۔
پیچھے سالار کو کانٹوں کے پلنگ پر سلا ہو جیسے ۔

عین ایک بات پوچھوں ۔ وہ نکاح کی تیاری کررہی تھی جب حدیقہ نے اُس سے پوچھا ۔
پوچھو ۔ مگر جلدی ہاں مجھے کائرہ کو کپڑے دینے جانا ہے۔ 
تُم نے کل کہا کہ محبت کرنا ہمارے بس میں نہی ہے مگر اس محبت سے دور چلے جانا ہمارے بس میں ہے ۔ ایسا کیوں کہا تُم نے ۔ کسی کو پسند کرتی ہو۔ 
نننہیں ایسا تتتو کککچھ نننہی ہے ۔ تتتمہیں ایسے ہے للللگا مممیرے دل میں آئی ببببات تو کککہہ دی ۔ بس اور تّتتو کککچھ نہیں ۔

پھر آنکھوں میں آنسو کیوں ۔ حدیقہ نے اُس کا نظریں چرانا دیکھ کر کہا۔

مجھے کائرہ کے پاس جانا ہے تُم تیار ہو فالتو کی باتیں مت کرو ۔
وہ کہتی باہر کی جانب بھاگی۔ 

شام پانچ بجے ۔
ارے جلدی کرو ۔ دلہن کدھر ہے اور دولہے صاحب کو کوئی فون کرو کہاں رہ گیا ۔ آج کے دن بھی آفس میں گھس گیا ہے ۔نور کب سے چلاتی سب کو حکم دے رہی تھی ۔
ارے بیگم صاحبہ ہوش کریں آپ ہمیں مدہوش کررہی ہیں ۔ اتنی حسین بیوی ہے ہماری اور اُسے دوسروں کے دولہے ڈھونڈنے کی فکر ہے اپنے دولہے کو ہی دیکھ لیں ۔کیسا لگ رہا ہوں ۔ وہ جا رہی تھی جب دلاور صاحب اُنہیں روک کر کھڑے ہوگئے۔ 
بہت اچھے لگ رہے ہیں اب ہٹیں سامنے سے مجھے جانا ہے بہت کام ہیں ۔
ارے شوہر سے زیادہ کیا اہم ہے ۔وہ اُسے دوبارہ تھامتے کہنے لگے ۔
شرم کریں ۔ بچے جوان ہیں مگر ابھی تک باپ کی ہی جوانی نہی جا رہی ۔ وہ اُنہیں پیچھے کرتی کہنے لگی ۔
ارے میں بھی تو جوان ہوں ۔اور کتنی حسینہ اب بھی دم بھرتی ہیں  میرا  وہ بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگے ۔
دم بھرنے کی کیا ضرورت ہے دم ہی بھر جائے اُن کا ۔ نور بیگم کہتی آگے نکل گئی۔ 
بھائی صاحب آپ جوان تو ہیں مگر بیوی کسی بھی عمر میں چلی جائے پوتے پوتی والی ہی کیوں نہ ہوجائے اپنے مقابل عورت برداشت نہی ہوگی ۔ داور نے نور بیگم کو دیکھ کر کہا جو خود میں ہی غُصہ کرتی جا رہی تھی ۔
اس کے مقابل کوئی ہو بھی تو سہی ۔ اُس عمر میں بھی اپنے نام کی ایک ہی ہے ۔ دلاور صاحب کہتے مسکرانے لگے ۔
ہم تو بوڑھے ہوگئے ہماری تو کب کی چلی گئی ۔داور نے ہنسیا لہجے میں کہا۔
ارے جوان بیٹے کی شادی کررہے ہو ۔ ابھی بھی بوڑھا کہتے ہو خود کو ۔ جس کا بیٹا جوان ہو اُس کا کیا بڑھاپا ۔ دلاور کہتے اگے چلے گئے۔

امی میں نہی پہن رہی ۔ اتنا بھاری ہے مجھے کوئی ٹراؤزر ہڈی یہ کرتا شلوار لا دو ۔ کائرہ بھاری بھرکم لہنگا دیکھ کر ہی چلانے لگی ۔
اسماء جو اُس کا چلانا سن کے آئی تھی اب اُس کے رونے سن رہی تھی ۔

تو تم پہلی ہوگی جو اپنی شادی پر پینٹ شرٹ ڈالے گی ۔اسماء طنز کرتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
امی نکاح ہے صرف ۔کائرہ کڑھتی اُن سے کہنے لگی ۔
ہاں ایک ہی بات ہے ۔ اسماء نے ناگواری سے گردن گھمائی۔ 
اچھا آپ جائیں میں تیار ہوتی ھوں جائیں باہر۔  کائرہ اُن کو کمرے سے نکال کر دروازہ بند کرلیتی ہے ۔

وہ لہنگا دیکھتی ناگواری سے سوچنے لگی ۔ کچھ سوچنے کے بعد اُس نے الماری کی طرف رخ کیا۔ 

سب لان میں جمع تھے ۔ قریبی رشتےدار ، دوست احباب ، سب وہاں تھے ۔
لان میں بنے اسٹیج پر گھر کا ہر فرد تھا سوائے دولہے اور دلہن کے ۔

ارے کال کرو سالار کو ۔ داور نے دارق سے کہا ۔
جی چاچو میں کرتا ہوں ۔ابھی وہ کال کرتا کے اچانک اسٹیج پر سے سب اُتر کر اندر جانے لگے ۔
اُن سب کو جاتا دیکھ داور اور دارق بھی اندر چلے گئے ۔

کیا ہوا ہے سب یوں اندر کیوں آگئے ۔ داور نے آتے ہی سوال کیا ہے ۔
سالار کا میسیج آیا ہے ۔ وہ کہہ رہا ہے وہ یہ شادی نہی کرسکتا ۔ اُس کی کوئی مجبوری ہے اور اس مجبوری کا آپ کو جلد ہی پتہ چل جائے گا۔ رائد نے اپنے فون پر آنے والا میسیج سنایا ۔
ایسے کیسے نہیں آئے گا میں دیکھتا ہوں ۔ دارق جانے لگا ۔
رکو دارق باہر لوگ جمع ہیں یوں جانا ٹھیک نہی ہے وہ کہاں ہے یہ بھی پتہ نہی لوگ پہلے ہے سوال کررہے ہیں کہ نکاح لیٹ کیوں ہوگیا ہے۔ مجھے لگتا ہے نکاح کو دیر نہی کرنی چاہئے۔ ہمیں کائرہ اور دارق کا نکاح کردینا چائیے ورنہ ہم کسی کو منہ دیکھانے قابل نہی رہیں گے ۔دلاور صاحب نے جاتے ہوئے دارق کو روک کر کہا۔ 
جی ٹھیک  بھائی صاحب ۔ اسماء نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہاں میں سر ہلایا۔
میں کائرہ کو بلاتی ہوں ۔ آپ باہر جائیں ۔
ہممم ۔۔۔

وہ کالے کرتے میں دولہے کی جگہ بیٹھا تھا یا شاید قدرت نے یہ جگہ اُس کے لیے ہی چن رکھی تھی۔ 

یہ کیا ہے کائرہ ۔یہ کیا پہن رکھا ہے دارق کیا کہے گا اُس کو دلہن مل رہی ہے یا دولہا ۔
اسماء بیگم نے اُسے سفید رنگ کے کرتے میں دیکھا جس کے اُوپر اُس نے کالی شال مردوں کی طرح اوڑھ رکھی تھی جب کے نکاح کا دوپٹہ پگڑی کی صورت میں سر پے لپیٹ رکھا تھا۔

ایک منٹ دارق ، کہاں سے آگیا بیچ میں ۔ میں سالار سے شادی کررہی ہُوں امی ۔
اسماء نے اُسے ساری کہانی بتائی ۔
نہی کبھی بھی نہی میں مرجاوں گی لیکن دارق سے نکاح نہی کروں گی ۔وہ چیخی ۔
پھر مجھے مار کر مرنا کیوں میں تو لوگوں کی باتیں نہی سن سکتی ۔ اسماء روتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

اچھا آرہی ہُوں جائیں یھاں سے ۔

اسماء کے جانے کے بعد وہ بھی باہر آگئی ۔

وہ اُن کپڑوں میں بےحد حسین لگ رہی تھی ۔ ایک لمحے کو۔دارق بھی نظر ہٹانا بھول گیا۔ 
وہ اُس کے پہلو میں جا کر بیٹھ گئی ۔

کائرہ نے اُس کے پاؤں پر پاؤں مارا۔
جس سے دارق نے کراہ کے اُس کی جانب دیکھا ۔
یہ شادی نے صرف سمجھوتہ ہے تو اس کو وہی سمجھنا اپنی جیت نہی سمجھے ۔ میں کبھی تمہیں اپنا شوہر تسلیم نہی کروں گی ۔کائرہ کہتی مسکرا کر آگے آنے والے لوگوں کو دیکھنے لگی ۔
جو حکم آپ کا ۔ اور کچھ ۔ دارق اُس کی بات کو مذاق میں ٹال کر بیٹھ گیا ۔ اُسکے کیلئے یہی کافی تھا وہ اُسکی ہونے والی ہے ۔ مگر جانے قسمت کو کیا منظور تھا۔ 

نکاح کا وقت ہوگیا ہے نکاح کروا لیتے ہیں ۔ دلاور صاحب اسٹیج پر آئے ۔
جی بھائی صاحب ۔ داور مولوی کو بلانے جا چکا تھا ۔

کائرہ فیصل درانی ولد فیصل درانی  کیا آپ کو دارق دلاور درانی ولد دلاور درانی سے سکا رائج الوقت دس کروڑ حق مہر میں نکاح قبول ہے ۔
قبول ہے ۔
وہ اپنے حواسوں پر قابو پاتے ۔ قبول ہے کہتی ہے ۔
کائرہ فیصل درانی ولد فیصل درانی  کیا آپ کو دارق دلاور درانی ولد دلاور درانی سے سکا رائج الوقت دس کروڑ حق مہر میں نکاح قبول ہے
۔قبول ہے ۔
کائرہ فیصل درانی ولد فیصل درانی  کیا آپ کو دارق دلاور درانی ولد دلاور درانی سے سکا رائج الوقت دس کروڑ حق مہر میں نکاح قبول ہے
قبول ہے ۔

دارق دلاور درانی ولد دلاور درانی کیا آپ کو کائرہ فیصل درانی ولد فیصل درانی سکا رائج الوقت دس کروڑ روپے میں نکاح میں قبول ہیں ۔
قبول ہے قبول ہے قبول ہے ۔
دارق کی ہربڑاہٹ پر سب ہنس پڑے۔
دارق دلاور درانی ولد دلاور درانی کیا آپ کو کائرہ فیصل درانی ولد فیصل درانی سکا رائج الوقت دس کروڑ روپے میں نکاح میں قبول ہیں

قبول ہے ۔
دارق دلاور درانی ولد دلاور درانی کیا آپ کو کائرہ فیصل درانی ولد فیصل درانی سکا رائج الوقت دس کروڑ روپے میں نکاح میں قبول ہیں ۔
قبول ہے ۔
نکاح ہوچکا تھا ۔ مگر طوفان آنا باقی تھا شاید ۔
سب اپنے اپنے گھروں کو کا چکے تھے ۔ جب باقی گھر والے بھی لاؤنج میں جمع تھے ۔

کائرہ آپ آرام کرلو ۔ تھک گئی ہوگی ۔ دلاور کہتے جانے لگے جب رحیم دوڑتا ہوا آیا ۔
صاحب جی صاحب جی صاحب جی ۔
کیا ہوگیا ہے رحیم بوکھلا کیوں رہا ہے ۔ کیا ہوا ہے ۔
صاحب کی سب برباد ہوگیا ۔سب ۔۔وہ ابھی بھی ہانپ رہا تھا ۔
جبکہ  باقی سارے بھی کھڑے ہوگئے ۔

کیا برباد ہوگیا ہے آرام سےبیٹھ کر  بتاؤ ۔اور تُم ہانپنا تو بند کرو ۔عین بیٹا پانی لے کر آؤ ۔ دلاور صاحب اُسے بٹھاتے عین کو پانی کا کہتے ہیں ۔
جی بابا۔عین کچن کی جانب بھاگی ۔

 

صاحب جی وہ سب کے جانے کے بعد دروازے پے کوئی آیا ۔ رحیم لمحے بھر کو خاموش ہوا ۔
پھر ۔ دلاور نے اُسے دوبارہ پوچھا ۔ باقی سب بھی اُس کو پریشانی سے دیکھ رہے تھے ۔
پولیس والے آئے تھے وہ باہر ایک بڑا سا ڈبا دے گئے ۔ میںنے جب دیکھا تو اُس میں ۔
کیا تھا اُس میں بولو ۔ کیوں دل دھلا رہے ہو ۔
اس میں سس ۔۔۔۔ سسلار صاحب کی ڈیڈ باڈی تھی ۔
چٹاخ ۔
کیا بکواس ہے یہ ۔ داور صاحب اُس تک آئے اور تھپڑ ماردیا ۔
تمھارا دماغ ٹھیک ہے ہے رحیم تم کہہ رہے ہو سالار مر گیا ہے ۔ نشا کر رکھا ہے کیا ۔دماغ چل گیا ہے تمھارا ۔ دارق غصے سے چیختا اسکو جھنجھوڑ رہا تھا ۔
جب پیچھے سے کسی کے گرنے کی آواز آئی۔

عین ۔۔عین ۔ ۔۔کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو ۔
سب عین کو لیٹا رہے تھے جب ملازم بکسہ اندر اٹھا کر لائے ۔

عین کو ہوش آچکا تھا  ۔
دارق  بھاگ کر بكسے کی جانب گیا ۔
دری اُس مممیں مممیرا بںب ۔۔بیٹا نہی ہے مت دیکھو واپس بھیج دو ۔ جا کر واپس کر آؤ ۔

دارق سب کونظر انداز کرتا بکسے تک آیا ۔
اس نے ڈھکن اٹھاتے شدت سے دعا کی کہ اندر سالار نہ ہو ۔
مگر قسمت اپنا کھیل کھیل چکی تھی ۔
ڈھکن اٹھاتے ہی اُس کے ہاتھ کانپ گئے ۔ وہ یکدم پیچھے کو گرا ۔
آآآآآآآآہ ہ ہ ہ ۔۔
وہ اتنے زور سے چلایا کے درانی منشن کی دیواریں تک کانپ گئی ۔
عین لمحے میں اُس جانب بھاگی ۔

سالار اٹھو ۔۔سالار اٹھو نہ ۔ میںنے تمہیں کائرہ کیلئے چھوڑا تُم اُسے بھی  چھوڑ گئے مگر میرا کیا قصور تھا۔وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی ۔
سب اپنا آپ سمبھال رہے تھے ۔ مگر عین کو دیکھتے تڑپ کر رہ گئے ۔ وہ جسے ہمیشہ بھائی کہتی آئی تھی اُس سے دل و جان سے چاہنے لگی تھی ۔
سالار میںنے صرف کائرہ کو مانگا تھا تیری زندگی تو نہی مانگی تھی ۔ اگر نہیں رہ سکتا تھا اُس کے بغیر بول دیا ہوتا۔  دارق تیری محبت میں یہ بھی کر لیتا ۔ کیوں سالار ۔ ایک بار اٹھ جا یار سب تیرا ہوجائے گا ۔ سب دے دوں گا تُجھے ۔ وہ بچوں کی روتا اُس کو جھنجھوڑ رہا تھا ۔

بھائی جنازے کا وقت ہوگیا ۔ پلیز بھائی ، بھائی کو جانے دیں ۔
رائد اُس کے قدموں میں بیٹھا ۔
رائد اسے کہو نہ اٹھے ۔ایسے کوئی خفا ہوتا ہاں یار سے ۔ میں تو پھر اس کا بچپن کا دوست ہوں بول نہ اسے اٹھے ۔ میرے لیے نہ سہی کائرہ کیلئے اٹھ جائے ۔
کائرہ جو کب سے پتھر بنی بیٹھی تھی دارق کی آواز پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔
بھائی پلیز اُنہیں جانے دیں ۔ ۔ رائد اُس کہتا جنازے کی اور بڑھا ۔

جنازہ پڑھا جا چکا تھا ۔
بھائی قبر میں اُتارنے کیلئے آجائیں ۔ رائد نے دارق کو کہا جو دور ہوکر کھڑا ہوگیا ۔
رائد میں آج اُسے تھام نہی سکتا ۔ آج اُس نے دارق کو چھوڑ دیا ۔ اُس کے علاوہ میرا تو  کوئی رازدار ہی نہی تھا ۔ میں آج خود کو سمبھال نہی پا رہا ۔ مجھے سنبھالنے والا مٹی کو گلے لگا رہا ہے ۔ دارق کہتا قبرستان کی حدود سے نکل گیا۔  ۔
سالار کو رائد ، عاتق ، اور دلاور نے قبر میں اتارا ۔ داور پہلے ہی جا چکا تھا ۔ 

سب خاموش تھے ۔ آج کھانے کے ٹیبل پر تھے بس وحشت نے غیر رکھا تھا سب کو ۔

دارق ، یہاں کیوں بیٹھے ہو ۔
کائرہ اُسے لان میں بیٹھے دیکھ کے اُس تک آئی ۔
سالار کو واپس لے آؤ کائرہ  ۔ میں مر جاؤں گا ۔ میری سانسیں بند ہورہی ہیں ۔

تو بند کیوں نہی ہوتی ۔ کائرہ نے بے حسی سے پوچھا۔ 
اس نے حیرت سے اُسے دیکھا۔ 

 

 

ایسے مت دیکھو ، جاؤ نکاح کی خوشیاں مناؤ ، یار کے کفن پر تُم نے اپنی قسمت کی خوشیاں لکھی ہیں ۔
تم مرجاتے اتنا درد نہ ہوتا پر سالار نے تمہیں خوشی دینے کیلئے خود کو ہار دیا ۔ اُس نے یاری میں ایسا کیا محبت میں کیا کیا کر دیتا ۔ پہلے میں اُسے شادی صرف تمہیں نیچا دکھانے کیلئے کررہی تھی ۔ لیکن اب مجھے اُس سے محبت ہوگئی ۔ کاش وہ نہ مرتا تُم مرجاتے اتنی خود غرضی ، اُس کے باپ کو کیا منہ دکھاؤ گے۔  اپنی بہن کو کیسے بہلاؤ گے جو زندہ اس وجہ سے تھی کے کسی کا ہی سہی میری نظروں کے سامنے تو ہوگا ۔ تُم اتنے خود غرض ہو نہ کے تم سے محبت تو کیا نفرت کا بھی دل نہی کررہا ۔ اپنی ماں کو کیا کہو گے جس نے سالار کو تمہارا جوڑواں بھائی بنا کر پالا ۔ تُم واقعی مرجاؤ اتنی نفرتیں تُم برداشت نہی کر سکتے ۔ وہ کہتی اندر جا چکی تھی ۔

دارق اُس کے الفاظوں کو سوچ رہا تھا۔  سب کو سوچ رہا تھا ۔ کچھ سوچتے باہر کی جانب نکل گیا ۔

عین کھانا کھا لو ۔ حدیقہ مسلسل اُسے کھانا کھلانے کی کوششیں کررہی تھی ۔ مگر سامنے والی پتھر کی مورت بنے بس ایک نکتے کو گھورنے لگی ہوئی تھی ۔

کائرہ اسے کہو نہ کھانا کھا لے تمھاری بات مان لے گی ۔ حدیقہ نے پاس سے گزرتی کائرہ کو کہا ۔ ۔
حدیقہ جب چوٹ پر دل لگے نہ تو کھانا تو کیا سانسیں بھی بوجھ لگنے  لگتی ہیں ۔ تُم رہنے دو جب اُس کا دل کرے گا کھا لے گی ابھی اس کا اندر ویران ہے اُس بھوک نہی لگ رہی ۔ جب من سمبھل جائے گا وہ کھا لے گی ۔ کائرہ کہتی باہر نکل گئی۔ 

رائد ، داور کہاں ہے ۔ دلاور نے اُسے نہ پاکر پوچھا ۔
کمرے میں ہیں تایا جان ۔ بیٹا کھونا آسان نہیں ہے اور بیٹا بھی جب جوان ہو ، سہرا سجائے اُن کے روبرو کھڑا ہو ۔

ایک سال بعد :
سب خود میں ہی رہنے لگے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔

کائرہ تُمہاری پڑھائی مکمل ہوگئی ہے تو رخصتی کردیں۔  دلاور

نے ناشتے کے ٹیبل پر پوچھا ۔

 

مامو جان اتنا کافی نہی ہے کے آپ کے بیٹے نے کسی کی قبر بنا کر اپنے لیے سیج سجائی ہے ۔ جتنی خوشی اس نے دیکھنی تھی دیکھ لی ۔ کوئی رخصتی کی تقریب نہی ہوگی۔  آپ میں عزت بچانے کیلئے نکاح کا کہا تھا میںنے کرلیا اگر اُس دِن معلوم ہوتا نہ سالار کیوں نہی آیا تو کبھی بھی میں اس سے نکاح نہ کرتی۔  رخصتی تو نہی ہوگی ۔ کائرہ کہتی جانے لگی ۔ جب داور نے اُسے روکا ۔
کائرہ ، میں معاف کرچکا ہوں دارق کو ، تُم بھی کردو ۔ سب نے کردیا ہے ۔ داور نے اُسے دیکھتے کہا ۔
مامو جان ۔ نہ آپ نے نہ گھر کے کسی اور فرد نے اسے معاف کیا ہے بس سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ میرا ایسا کو ارادہ نہی ہے ۔ میں معاف نہی  کروں گی ۔ آپ بتائیں آپ کو بیٹا یاد نہی آتا ،
نہیں آتا دارق کو دیکھ لیتا ہوں نہ تو ایسا لگتا ہے سالار سامنے کھڑا ہے ۔ وہ جانے لگے ۔
رکیں ، اگر آپ کو سالار یاد نہی آتا تو پچھلے ایک سال سے بنا بھولے اُس کے کمرے میں دودھ کیوں لیکر جاتے ہیں ۔کیوں رات کو اُس کے کمرے میں سلیپنگ پلز رکھ کر آتے ہیں ۔ آپ ایک سال میں اپنی دوائیں کھانا بھول گئے لیکن یہ نہی بھولے کہ سالار رات کو دودھ پئے بغیر سو نہی سکتا تھا ، وہ سلیپنگ پلز لیتا ہے آپ نہی بھولے کیوں ۔ آپ کو یاد نہیں آتی ۔ تو کس کو بہلا رہے ہیں یہ سب کرکے ۔ روز صبح وہ دودھ کا گلاس میں  کسی غریب کو پلا کر آتی ہوں ، اور ایک سال میں ایک دن ایسا نہی تھا  جب صبح مجھے  وھاں دودھ کا گلاس  نہ ملے ۔
اور رائد کو بھی بھائی یاد نہی آتا ۔ اگر نہی تو ساری رات کیرم بورڈ لیے
بالکونی میں کیوں بیٹھتا ہے کس کا انتظار کرتا ہے کون آئے گا ۔ کیرم تو سالار  اور رائد کے علاوہ کوئی نہی کھیلتا دارق جو  تب بھی کیرم آنے کے  باوجود یہ کہتا تھا اُسے پسند نہی ہے ۔ وہ کھیلے گا نہی نہ تو کس انتظار ایک سال سے راتیں جاگ کر رائد کرتا ہے ۔ بولیں مامو جان ۔ اب بھی کسی کو یاد نہی آتی اُسکی ۔

عین کو لے لو جس نے آج تک فجر نہی پڑھی کہ نیند خراب نہ ہو ۔ ایک سال سے تہجد بھی پڑھ ہے پوری رات اُسکی آہیں اور سسکیوں سے رونا سنائی دیتا ہے ۔ جب وہ خدا سے یہ کہتی نہ کہ ایک بار بات کروا دے وہ اُسکی سالار سے۔  تب نفرت ہوتی ہے مجھے دارق سے ۔ جب ممانی جان اور مما چھپ چھپ کر روتی ہیں میں تب تڑپتی ہوں تب نفرت ہوتی ہے مجھے اُس سے ۔ کیوں خود غرض بن گیا۔  جب عائش حدیقہ مذاق نہی کرتے ، رائد نے ڈاکٹر کی خواہش چھوڑ کے  سالار کا بزنس سمبھال لیا ۔ عاتق گھر نہی آتا ، عین راتوں کو روتی ہے آپ سالار کے کمرے میں ٹہلتے رہتے ہیں ۔ کسی کی رات بالکنی میں گزرتی ہے تو کسی کی روتے ہوئے فریادیں کرتے ۔ اب بھی آپ کہیں گے آپ کو سالار یاد نہی آتا ان کو یاد نہی آتا ۔ میرا اتنا بڑا ظرف نہیں ہے کے سمبھال لوں خود کو ۔ مجھے سالار کی آج تک بس ایک بات یاد آتی ہے میں نے لڑکیوں والا حلیہ اپنا لیا۔  جانتے ہیں میں وہ کپڑے کیوں پہنتی تھی۔  مجھے لڑنا سیکھايا سالار نے ، سیلف ڈیفنس سکھایا سالار نے ، کپڑوں پر بات آئی تو اُس نے کہا تُم جو بھی پہنو مگر باہر اگر تُمہیں کوئی چھیڑے تو اس کا منہ نوچ لینا ۔ اُس کو ہسپتال لے جانے  کےلئے ایمبولینس آئے اُسے اتنا مارنا ۔ کیس بنے تو تمہارا کزن ہے نہ پولیس میں اگر وہ نہی ہے نہ تو سالار داور درانی ہر وقت تمہارے لیے موجود ہے ۔ اُسے جج بھی ، منسٹر بھی خریدنا پڑے گا نہ وہ بھی خرید لے گا ۔ میں جانتی تھی وہ مجھ سے محبت کرتا ہے  اور میں اُس کی محبت کا احترام کرتی تھی کیوں کہ اُسنے دارق کی طرح کبھی نیچا نہی دکھایا ، اُس نے خود کو مطمئن کرنے کے لیے دوسروں کو چوٹ نہیں دی ۔ اُس کی اچھائی کا کیا ثبوت دوں اُس نے دوست کے لیے محبت چھوڑ دی جب اُس سے کام نہ ہوا زندگی بھی ہار دی ۔ وہ عشق میں ہارا تھا اُس نے نبھا کر بتایا تھا یہ یاری ہے ۔ اب بھی اُس کی یاد نہی آتی کسی کو۔  حیرت ہے ۔ وہ کہتی کمرے میں چلی گئی ۔
جب کے باقی لوگوں کو انگاروں پر لوٹنے کیلئے چھوڑ گئی۔  کسی کے وہم وگمان میں بھی نہی تھا جو وہ کررہے ہیں کوئی اُنہیں دیکھ رہا ہے۔ 

 

رنگ رنگ رنگ رنگ رنگ رنگ ۔۔۔۔
سمن بولو کیا بات ہے۔  اس ایک سال میں عاتق  سمن اور قندیل سے رابطے میں رہا۔ 
ایڈریس سنڈ کررہی ہوں آسکتے ہو ۔۔ پلیز ۔ جلدی آجاؤ ۔۔ سمن نے گھبراتے لہجے میں بات کرکے فون کاٹ دیا ۔

وہ اب ایک بڑے سے بنگلہ کے باہر کھڑا تھا۔  اُسّے یہ تو معلوم تھا کہ یہ قندیل کا گھر نہی ہے ۔ کس کا ہے کام۔آسان ہوجاتا اگر باہر بورڈ پڑھ لیتا ۔ ۔

جی آپ کو صاحب ۔
اندر بتاؤ عاتق درانی آیا ہے ۔
جی آپ انتظار کریں میں آتا ہوں ۔

صاحب جی کوئی عاتق درانی آیا ہے ۔

یہ کون ہے ۔ غلط ایڈریس پر آگیا ہوگا ۔ کس  سے ملنا ہے بتایا اُسنے ۔

مُجھ سے ملنا ہے میںنے بلایا ہے ۔ میرا دوست ہے ۔ سمن نیچے آتی اُنہیں کہتی ہے۔ 

راتوں رات دوست کہاں سے آگیا۔ 
آپ نے کبھی خبر نہی رکھی ایک سال سے دوست ہے میرا ۔اندر آنے دیں اُنہیں ۔

آجائیں صاحب جی۔  

ہائے سمن ۔۔کیسی ہو ۔ سب ٹھیک ہے نہ ۔۔تُم نے ۔ابھی وہ بات مکمل کرتا سمن بول پڑی ۔
ہم سب ٹھیک ہے بس ایشو ملنا چاہتا تھا تُم سے ۔ جاؤ اوپر والے دوسرے کمرے میں ہے ۔ سمن کے بتانے پر وہ اوپر چلا گیا۔  ۔۔

تُم یھاں کیسے ۔ میرا مطلب ہے بابا نے بلایا ہے ۔ وہ میری ہر ضد پوری کرتے ہیں دیکھو میںنے پرسوں اُنہیں کہا کہ مجھے تُم سے شادی کرنی ہے تمہیں آج بلا لیا ۔ وہ آگے بڑھتی گلے لگنے لگتی ہے جب وہ دور کرتا ہے اُسے ۔

دور رہو عشنا عثمان رہبانی ۔ میں تمہارے لیے نہیں آیا نہ ہی تمہارے باپ کے کہنے پر آیا ہوں ۔ میں ایشو سے ملنے آیا ہوں ہٹو آگے سے۔ 
وہ اُسے سائڈ کرتا آگے جا چکا تھا۔ 
ایسا کیا ہ اُن دونوں بہن بھائی میں جو صدقے واری جاتا ہے اُن پر ۔ مگر تُم جو بھی میری سال بھر سے نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔  تُم تو صرف میرے ہو۔ جیسے میری مما نے اپنی محبت اُس عورت سے چھین لی تھی میں بھی چھین لوں گی ۔ برسوں پہلے میری ماں نے اپنی سوتن کو اُس جگہ بھیجا تھا اب اُس کی بیٹی کی باری ۔۔وہ کہتی نیچے چلی گئی۔ 

ایشو ۔۔ ایشو۔۔۔ عاتق اندر آیا مگر اندر کوئی نظر نہی آیا ۔ ۔
اچانک الماری کے پیچھے سے قندیل باہر نکلی ،
تُم رو رہی تھی ۔۔ عاتق نے اُس کے چہرے پر آنسوؤں کے نشان دیکھ kr پوچھا ۔
مجھے یھاں سے لے چلو ۔ مجھے یھاں سے نکالو ۔۔ وہ پتہ نہی مجھے کیوں لائے ہیں ۔ کیا جاننا چاہتے ہیں ۔

مطلب کی ہوا ہے ۔یھاں اپنی مرضی سے نہی آئی تُم ۔
نہی نہ میں نہ سمن نہ ایشو ۔۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے نہی آیا ۔۔ ہمیں لے چلو یھاں سے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
ٹھیک ہے سامان باندھو اور آجاؤ ۔۔۔

 

عاتق نیچے جا کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔ جب کے اب اُس کے ساتھ سمن اور ایشو بھی بیٹھے تھے ۔
اس کے سامنے عثمان ، زرین اور عشنا بیٹھے تھے ۔ عشنا مسلسل اُسے دیکھنے میں مصروف تھی ۔

چلیں ۔ اوپر سے آتی قندیل نے بایگز سامنے رکھے ۔ وہ تینوں اٹھ کھڑے ہوئے ۔
کہاں جا رہے ہو تم لوگ ۔ کوئی کہیں نہی جا سکتا ۔۔۔
بابا جس لڑکے کا ہم نے اس لڑکی سے پوچھنا تھا وہ یہی ہے عاتق ۔۔ آپ اُن تینوں کا جانے دیں اور میرا اور عاتق کا نکاح پڑھوا دیں ۔
کیا بکواس ہے یہ ۔ عاتق چلایا ۔
بکواس نہی ہے میں محبت کرتی ہوں تُم سے ۔ بعد میں آؤ نہ آؤ پتہ نہی ابھی نکاح کرنا ہے۔
میرا نکاح ہوچکا ہے ۔ اُس کے  لمحے میں کہنے پر عشنا اور قندیل نے اُسے دیکھا ۔ آنکھوں دونوں کی آنکھوں سے رواں تھے ۔ ۔
جھوٹ ہے ۔ تُم مذاق کررہے ہو ۔ عشنا اُس کے سامنے آئی ۔
میں سچ کہہ رہا ہوں میرا نکاح ہوچکا ہے یہ ہے میری منکوحہ ۔ اُس نے قندیل کو خود سے لگاتے کہا ۔ جب کے لمحے کو تو قندیل کو سمجھ ہی نہی آیا کے ہوا کیا ہے ۔
نہیں نہیں ایسا نہی ہوسکتا میں اس کو جان سے مار دوں گی ۔۔
دور رہو اس سے عشنا ورنہ جان لے لوں گا ۔۔میں اپنی بیوی اور اُس کی فیملی کو لینے آیا تھا ۔ اُس کو لے کر جا رہا ہوں ۔
رکو لڑکے ۔۔ نکاح نامہ دکھاؤ پہلے ۔
لمحے میں سب کی رنگت زرد ہوئی ۔
صرف ایک عاتق  کو چھوڑ کے۔

ٹھیک ہے میں نکاح نامہ جیب میں لے کے نہی گھومتا ۔ میں آپ کو  گھر سے منگوا کر دیکھا دیتا ہُوں ۔

ٹھیک ہے منگواو مگر کال ہمارے سامنے کرو گے ۔۔۔

ٹھیک ہے۔ او کے سامنے کرلیتا ہوں ۔۔۔

قندیل سمن اور ایشو سوچ رہے تھے نکاح نامہ کہاں سے آئے گا ۔اگر آئے گا تو اس پر سائن کہاں سے آئے گیں ۔۔

جبکہ عشنا عثمان اور زرین سوچ رہے تھے اگر سچ میں نکاح ہوگیا ہوا تو ۔ عشنا کیا کرے گی یہ سوچ آتے ہی عثمان نے اُس کی جانب دیکھا ۔
جب کے عاتق سب کو نظر انداز کرتا کیا کرنے میں مصروف تھا ۔

جاری ہے

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button